ETV Bharat / state

غیرمنظور شدہ مدارس کو بند کرنے کا حکمنامہ آئینی طور پر غلط، عدالت سے راحت کی امید: ریٹائرڈ جج بی ڈی نقوی - Order to close Madrasas

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Aug 3, 2024, 3:24 PM IST

Updated : Aug 6, 2024, 9:09 AM IST

اترپردیش حکومت کی جانب سے 8400 غیرمنظور شدہ مدارس کے طلبا کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرانے سے متعلق حکمنامہ کو ریٹائرڈ جج بی ڈی نقوی نے غیرآئینی قرار دیا۔ انہوں نے اس معاملہ میں عدالت سے راحت کی امید کا اظہار کیا۔ Retired Judge BD Naqvi on Unapproved Madrasa Issue

ریٹائرڈ جج بی ڈی نقوی
ریٹائرڈ جج بی ڈی نقوی (Etv Bharat)
مدارس کے مسئلے پر ریٹائرڈ جج بی ڈی نقوی سے خاص بات چیت (ETV Bharat Urdu)

لکھنؤ: اتر پردیش کے چیف سیکرٹری نے گزشتہ ماہ ایک حکم نامہ جاری کر کے ریاست میں 8400 سے زائد غیر منظور شدہ مدارس کے طلبہ و طالبات کو سرکاری سکول میں داخلہ کرانے کا حکم دیا تھا جس پر ضلع سدھارتھ نگر میرٹھ سمیت کئی اضلاع میں سیکشن ایجوکیشن آفیسرز نے غیر منظور شدہ مدارس کو بند کرنے کا سخت تاکید کی۔ اس کے بعد ریاست کی سماجی فلاحی اور اصلاحی تنظیموں نے میٹنگ کی۔ مسلم پرسنل بورڈ اور مدارس کے ذمہ داران نے وزیراعلی یوگی ادتیہ ناتھ سے بھی میٹنگ کی لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی بھی جواب نہیں آیا ہے۔
اس حوالے سے ریٹائرڈ جج بی ڈی نقوی سے ای ٹی وی بھارت نے بات چیت کی ہے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ عدالت میں اگر اس حکمہ کو چیلنج کرتے ہیں تو کیا کچھ راحت مل سکتی ہے ریٹائرڈ جج بی ڈی نقوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ائین میں ارٹیکل 30 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اقلیتی سماج اپنے ادارے انسٹیٹیوشن کھولنے کا اختیار رکھتی ہے لہذا چیف سیکرٹری کا جو حکم نامہ جاری ہوا ہے یہ غلط ہے مدارس کے ذمہ داروں کو عدالت کا رخ کرنا چاہیے اور امید ہے کہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ اس پر روک لگا دی گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ارٹیکل 29 میں یہ بتایا گیا ہے کہ اقلیت اپنی تہذیب ثقافت کی تحفظ کر سکتے ہیں ارٹیکل 30 میں بتایا گیا ہے کہ اقلیت اپنے پسند کی تعلیم کے لیے ادارے کھول سکتے ہیں اس اختیار کے ساتھ اقلیت نے ریاست بھر میں اپنے ادارے کھولیں ہیں لہذا اگر عدالت میں یہ معاملہ جائے گا تو ائین کی نظر میں فیصلہ انے کی توقع ہے اور چیف سیکرٹری کے خط پر بھی روک لگ سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ائین میں ویلیفیر اسٹیٹ کہا گیا ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ اسٹیٹ کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کام کرے گی نہ کہ غریب مزدور اور سماج کے پچھڑے ہوئے لوگوں کو تعلیم سے محروم کے لیے کرنے کے لیے کام کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس حکم نامے سے ریاست کے بڑے مدرسے بھی متاثر ہو سکتے ہیں خاص طور پر ندوۃ العلماء دارالعلوم دیوبند مدرسہ سلفیہ یعنی جو بھی مدرسہ بورڈ سے یا کسی بورڈ سے منظور شدہ نہیں ہے اس پر بھی اثر ہوگا لہذا مدارس کے ذمہ داران کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
نقوی نے مزید کہا کہ مدارس میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے مدارس کو اپنی تعلیمی معیار، نصاب ، صاف صفائی اور موجودہ دور کی تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس میں اگر طلبہ کو تعلیم دی جا رہی ہے تو اس کے مستقبل پر بھی غور کرنا چاہیے کہ مستقبل میں یہ طلبہ کیا کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح وزیراعظم نریند مودی نے کہا کہ ہم نے یو اے ای میں مندر بنایا اسی طرح ان کو یہ بھی پیغام دینا چاہیے کہ ہم اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں اور کس طریقے سے ان کو بجٹ دے رہے ہیں۔

مدارس کے مسئلے پر ریٹائرڈ جج بی ڈی نقوی سے خاص بات چیت (ETV Bharat Urdu)

لکھنؤ: اتر پردیش کے چیف سیکرٹری نے گزشتہ ماہ ایک حکم نامہ جاری کر کے ریاست میں 8400 سے زائد غیر منظور شدہ مدارس کے طلبہ و طالبات کو سرکاری سکول میں داخلہ کرانے کا حکم دیا تھا جس پر ضلع سدھارتھ نگر میرٹھ سمیت کئی اضلاع میں سیکشن ایجوکیشن آفیسرز نے غیر منظور شدہ مدارس کو بند کرنے کا سخت تاکید کی۔ اس کے بعد ریاست کی سماجی فلاحی اور اصلاحی تنظیموں نے میٹنگ کی۔ مسلم پرسنل بورڈ اور مدارس کے ذمہ داران نے وزیراعلی یوگی ادتیہ ناتھ سے بھی میٹنگ کی لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی بھی جواب نہیں آیا ہے۔
اس حوالے سے ریٹائرڈ جج بی ڈی نقوی سے ای ٹی وی بھارت نے بات چیت کی ہے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ عدالت میں اگر اس حکمہ کو چیلنج کرتے ہیں تو کیا کچھ راحت مل سکتی ہے ریٹائرڈ جج بی ڈی نقوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ائین میں ارٹیکل 30 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اقلیتی سماج اپنے ادارے انسٹیٹیوشن کھولنے کا اختیار رکھتی ہے لہذا چیف سیکرٹری کا جو حکم نامہ جاری ہوا ہے یہ غلط ہے مدارس کے ذمہ داروں کو عدالت کا رخ کرنا چاہیے اور امید ہے کہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ اس پر روک لگا دی گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ارٹیکل 29 میں یہ بتایا گیا ہے کہ اقلیت اپنی تہذیب ثقافت کی تحفظ کر سکتے ہیں ارٹیکل 30 میں بتایا گیا ہے کہ اقلیت اپنے پسند کی تعلیم کے لیے ادارے کھول سکتے ہیں اس اختیار کے ساتھ اقلیت نے ریاست بھر میں اپنے ادارے کھولیں ہیں لہذا اگر عدالت میں یہ معاملہ جائے گا تو ائین کی نظر میں فیصلہ انے کی توقع ہے اور چیف سیکرٹری کے خط پر بھی روک لگ سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ائین میں ویلیفیر اسٹیٹ کہا گیا ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ اسٹیٹ کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کام کرے گی نہ کہ غریب مزدور اور سماج کے پچھڑے ہوئے لوگوں کو تعلیم سے محروم کے لیے کرنے کے لیے کام کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس حکم نامے سے ریاست کے بڑے مدرسے بھی متاثر ہو سکتے ہیں خاص طور پر ندوۃ العلماء دارالعلوم دیوبند مدرسہ سلفیہ یعنی جو بھی مدرسہ بورڈ سے یا کسی بورڈ سے منظور شدہ نہیں ہے اس پر بھی اثر ہوگا لہذا مدارس کے ذمہ داران کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
نقوی نے مزید کہا کہ مدارس میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے مدارس کو اپنی تعلیمی معیار، نصاب ، صاف صفائی اور موجودہ دور کی تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس میں اگر طلبہ کو تعلیم دی جا رہی ہے تو اس کے مستقبل پر بھی غور کرنا چاہیے کہ مستقبل میں یہ طلبہ کیا کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح وزیراعظم نریند مودی نے کہا کہ ہم نے یو اے ای میں مندر بنایا اسی طرح ان کو یہ بھی پیغام دینا چاہیے کہ ہم اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں اور کس طریقے سے ان کو بجٹ دے رہے ہیں۔

Last Updated : Aug 6, 2024, 9:09 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.