ETV Bharat / state

گیا کے گاؤں میں ایک بھی مسلم نہیں پھر بھی یا حسینؓ کا نعرہ ہورہا ہے بلند - slogan of Hussain is raised - SLOGAN OF HUSSAIN IS RAISED

گیا ضلع کا کٹھوارا گاوں قومی یکجہتی اور ایک دوسرے مذہب کے تہوار کے احترام کرنے کے جذبے کی مثال ہے۔ کٹھوارا گاوں میں ایک بھی گھر مسلم کا نہیں ہے۔ پھر بھی یہاں محرم کی ایک تاریخ سے دسویں محرم تک یا حسین کا نعرہ گونجتا ہے۔ دو سو برسوں سے یہاں تازیہ بنانے کی روایت ہندو خاندان میں ہے۔ آج کے ماحول میں بھی خاندان اور گاوں اس روایت خو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ Not a single Muslim in a village of Gaya

گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 16, 2024, 9:31 PM IST

Updated : Jul 16, 2024, 9:48 PM IST

گیا کے گاؤں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)

گیا: بہار میں حال کے گزشتہ تہواروں کے موقع پر فرقہ وارانہ کشیدگی کے معاملے سرخیوں میں رہے ہیں۔ اس میں ضلع گیا بھی اچھوت نہیں ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود بہار میں تہواروں کے موقع پر آپسی بھائی چارے کی بہترین مثال اکثر و پیشتر پیش بھی کی جاتی ہے۔ صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب اور ایک ساتھ ملکر تہوار منانے کی روایت کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ ضلع گیا میں ایک ایسی ہی آپسی بھائی چارے، گنگا جمنی تہذیب کی مثال محرم میں دیکھنے کو ملی ہے۔ ضلع ہیڈ کوارٹر سے قریب تیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گروا بلاک میں ایک گاؤں ' کٹھوارا گاؤں ' ہے۔

گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)

اس گاؤں کی مثال اسلیے بھی خاص ہے کیونکہ اس گاؤں میں ایک بھی مسلم گھر نہیں ہے۔ باوجود کہ اس گاؤں میں پوری عقیدت و احترام کے ساتھ امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام اور شہداء کربلا کو خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے اور شہداء کربلا کی یاد میں عام ہوئی محرم کی تمام رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ گاؤں میں ایک بھی مسلم گھر نہیں ہونے کے باوجود محرم کی پہلی تاریخ سے لے کر دسویں تک' یاعلی یا حسین' کے نعروں کی گونج رہتی ہے۔ گاؤں کے درجنوں ہندو فرقے کے نوجوان اور بچے ' پیک ' اپنے کمر میں کھنگرو اور لوہے کی گھنٹی باندھ ' کر گاؤں گاؤں جاتے ہیں اور یاعلی یا حسین کا نعرہ لگاتے ہیں۔ علاقے کے باشندہ سماجی رکن سیفی خان بتاتے ہیں کہ کٹهوارا گاؤں کے ایک ہندو کنبہ سے آنے والے اشوک وشو کرما کی چوتھی نسل ہے جو اپنے گاؤں میں تازیہ بنانے کا کام کرتی ہے۔

گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)

محرم کے دس دنوں تک جو بھی تقریب ہوتی ہے اس میں گاؤں کے لوگوں کا بھر پور تعاون ملتا ہے۔ مقامی پولیس اور نتظامیہ سے لے کر پورے گاؤں کے لوگ ساتھ دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے کٹھوارہ گاؤں میں ایک گھر بھی مسلم فرقے کے لوگوں کا نہیں ہونے کے باوجود بھی محرم کے دوران 10 دن تک یا حسین کے نعرے پورے گاؤں میں گونجتے ہیں۔ اشوک وشو کرما اور گاؤں کے ہندوؤں سمیت علاقے کے مسلم سماجی کار کن سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے خصوصی گفتگو کی ہے۔ اس دوران اشوک وشو کرما نے بتایا کہ محرم منانے کی روایت نسل در نسل چلی آرہی ہے۔ ان کے پردادا، دادا اور والد کے بعد اب وہ گزشتہ 20 برسوں سے خود اس تہوار کو منا رہے ہیں۔

گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)

انکے یہاں محرم منانے کی روایت 200 برسوں پرانی ہے۔ اشوک وشو کرما نے بتایا کہ اُنہوں نے اپنے بچوں کو بھی تربیت دی ہے کہ وہ اس روایت کو برقرار رکھیں اور ابھی ان کے ساتھ تازیہ بنانے سے لے کر سبھی رسموں میں گھر کے مرد خواتین بچے بوڑھے جوان سبھی ساتھ ہوتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کا بھی بھرپور تعاون ملتا ہے۔ سب ساتھ ملکر تہوار مناتے ہیں، کٹھوارا گاؤں قریب دو سو مکانات پر مشتمل ہے اور یہاں سے پہلام ' دسویں محرم ' کی صبح پورا گاؤں تا زیہ ملان کے لیے جاتا ہے۔ گاؤں کے درجنوں ہندو نوجوان اور بچے پیک لگاتے ہیں۔

گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)
تازیہ نکالنے کا لیتے ہیں لائسنس گاؤں میں صرف محرم نہیں منایا جاتا بلکہ قانونی کاروائی بھی پوری کی جاتی ہے۔ تازیه نکالنے کے لیے باضابطہ لائسنس تھانہ سے لیا جاتاہے۔ تھانہ انچارج سرفراز امام نے بتایا کہ کٹھوارا گاؤں کے ہندو فرقے کے لوگ تازیہ بنانے کا لائسنس لینے پہنچے تو ہم لوگ بہت خوش ہوئے کہ وہاں کے لوگ آج بھی ذات مذہب سے اوپر اٹھ کر محرم کے تہوار کو آپسی بھائی چارے کے ساتھ مناتے ہیں۔چھوڑنے پر پڑ جاتے ہیں بیمارکٹھوارا گاؤں کے اشوک وشو کرما نے بتایا کہ ان کے پردادا سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ ابھی ان کی چوتھی پیڑھی تازیہ بنانے کا کام کر رہی ہے۔ اس سے پہلے دوسری پیڑھی نے دو چار سالوں تک تازیہ نہیں بنایا اور اس کام کو چھوڑ دیا تھا۔ جس سے گھر کے لوگ ہمیشہ بیمار پڑنے لگے۔ گھر کی برکت ختم ہوگئی تھی۔ اس لیے پھر سے تازیہ بنانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد سے ہم لوگ ہمیشہ امن چین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں ہماری نسل اس کام کو آباد رکھے گی۔ انہوں نے کہاکہ ہماری عقیدت ہے کہ اس محرم کو مناتے ہیں۔ گھر کے بچوں کو بھی محرم کے مہینے کا انتظار ہوتاہے۔ گاوں سے جب جلوس نکلتا ہے تو گاوں کے دوسرے لوگ شربت پانی کا اہتمام کرتے ہیں۔ پوری عقیدت ہوتی ہے اور اس عقیدت پر ہمیں فخر ہےعظیم قربانی کا ہے محرم مہینہ گاؤں کے لوگوں میں دنیش یادو اور لال جی یادو نے بتایا کہ گاؤں میں ہندو فرقے کے سبھی ذاتی کے لوگ بستے ہیں۔ گاؤں میں محرم منانے کی روایت اشوک وشو کرما کے خاندان سے شروع ہوئی ہے۔ لیکن محرم میں گاؤں کے سبھی لوگ عقیدت سے شامل ہوتے ہیں اور سبھی لوگ نذر و نیاز کرواتے ہیں۔ فاتحہ کے لیے دوسرے گاؤں سے مسلم شخص کو بلایا جاتا ہے کیونکہ یہاں پر کوئی مسلم نہیں ہے۔ پچیس تیس برس قبل ایک دو گھر مسلمانوں کے تھے لیکن اب وہ دوسری جگہ جاکر آباد ہوگئے ہیں لیکن انکا آنا جانا لگا ہوتا ہے۔ کوئی بھی وشو کرما خاندان کو محرم منانے سے نہیں روکتا اور نہ ہی کبھی اس پر کوئی تنازع ہوا ہے بلکہ ہم لوگ ان جگہوں پر مثال بھی پیش کرتے ہیں جہاں علاقے میں کہیں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔

لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہمارے گاؤں آکر دیکھیں، ہمارے یہاں ایک بھی مسلم نہیں ہے لیکن ہم محرم اور دیگر تہواروں کو بڑی عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔ وشوکرما نے اپنے گھر کے سامنے ایک چھوٹا سا امام باڑا بھی بنایا ہوا ہے۔ جہاں وہ مٹی رکھنے کی روایت سے محرم کا آغاز کرتے ہیں ۔ اس جگہ پر سبھی لوگ بڑی عقیدت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ گھر کا کوئی بچہ بھی اس جگہ پر چپل جوتے پہن کر نہیں جا سکتا ہے۔ گاؤں کے لوگوں نے کہا کہ یہ ایک عظیم قربانی کا مہینہ ہے۔ اس میں اسلام مذہب کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نواسہ امام حسین علیہ السلام نے برائی کے خاتمے کے لیے اپنی شہادت پیش کی۔ گاوں کے نوجوان جو تعلیم یافتہ ہیں وہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی شہادت کو پڑھتے ہیں۔


گنگا جمنی تہذیب کی ہے مثال
گروا علاقے کے سماجی رکن سیفی خان نے کہا کہ کٹھوارا گاؤں ہندو مسلم اتحاد کا مظہر ہے۔ عقیدت کی مثال اس گاؤں کو کہا جا سکتا ہے۔ محرم کے موقع پر علاقے میں کئی مقامات پر اکثر جھگڑے ہوئے ہیں تو اسوقت بھی اس گاؤں کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی اور کہا کہ اس گاؤں سے لوگ محبت سیکھیں اور یہ دیکھیں کہ کیسے ہم اپنے ملک کو مختلف پھول کا گلدستہ بنا کر قائم دائم رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہاں محرم میں ان روایتی کرتب کا بھی مظاہرہ ہوتاہے جو مسلم آبادی میں محرم کے دوران ہوتے ہیں۔ آج کے وقت میں یہ قابل ستائش کام ہے۔

گیا کے گاؤں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)

گیا: بہار میں حال کے گزشتہ تہواروں کے موقع پر فرقہ وارانہ کشیدگی کے معاملے سرخیوں میں رہے ہیں۔ اس میں ضلع گیا بھی اچھوت نہیں ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود بہار میں تہواروں کے موقع پر آپسی بھائی چارے کی بہترین مثال اکثر و پیشتر پیش بھی کی جاتی ہے۔ صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب اور ایک ساتھ ملکر تہوار منانے کی روایت کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ ضلع گیا میں ایک ایسی ہی آپسی بھائی چارے، گنگا جمنی تہذیب کی مثال محرم میں دیکھنے کو ملی ہے۔ ضلع ہیڈ کوارٹر سے قریب تیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گروا بلاک میں ایک گاؤں ' کٹھوارا گاؤں ' ہے۔

گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)

اس گاؤں کی مثال اسلیے بھی خاص ہے کیونکہ اس گاؤں میں ایک بھی مسلم گھر نہیں ہے۔ باوجود کہ اس گاؤں میں پوری عقیدت و احترام کے ساتھ امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام اور شہداء کربلا کو خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے اور شہداء کربلا کی یاد میں عام ہوئی محرم کی تمام رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ گاؤں میں ایک بھی مسلم گھر نہیں ہونے کے باوجود محرم کی پہلی تاریخ سے لے کر دسویں تک' یاعلی یا حسین' کے نعروں کی گونج رہتی ہے۔ گاؤں کے درجنوں ہندو فرقے کے نوجوان اور بچے ' پیک ' اپنے کمر میں کھنگرو اور لوہے کی گھنٹی باندھ ' کر گاؤں گاؤں جاتے ہیں اور یاعلی یا حسین کا نعرہ لگاتے ہیں۔ علاقے کے باشندہ سماجی رکن سیفی خان بتاتے ہیں کہ کٹهوارا گاؤں کے ایک ہندو کنبہ سے آنے والے اشوک وشو کرما کی چوتھی نسل ہے جو اپنے گاؤں میں تازیہ بنانے کا کام کرتی ہے۔

گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)

محرم کے دس دنوں تک جو بھی تقریب ہوتی ہے اس میں گاؤں کے لوگوں کا بھر پور تعاون ملتا ہے۔ مقامی پولیس اور نتظامیہ سے لے کر پورے گاؤں کے لوگ ساتھ دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے کٹھوارہ گاؤں میں ایک گھر بھی مسلم فرقے کے لوگوں کا نہیں ہونے کے باوجود بھی محرم کے دوران 10 دن تک یا حسین کے نعرے پورے گاؤں میں گونجتے ہیں۔ اشوک وشو کرما اور گاؤں کے ہندوؤں سمیت علاقے کے مسلم سماجی کار کن سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے خصوصی گفتگو کی ہے۔ اس دوران اشوک وشو کرما نے بتایا کہ محرم منانے کی روایت نسل در نسل چلی آرہی ہے۔ ان کے پردادا، دادا اور والد کے بعد اب وہ گزشتہ 20 برسوں سے خود اس تہوار کو منا رہے ہیں۔

گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)

انکے یہاں محرم منانے کی روایت 200 برسوں پرانی ہے۔ اشوک وشو کرما نے بتایا کہ اُنہوں نے اپنے بچوں کو بھی تربیت دی ہے کہ وہ اس روایت کو برقرار رکھیں اور ابھی ان کے ساتھ تازیہ بنانے سے لے کر سبھی رسموں میں گھر کے مرد خواتین بچے بوڑھے جوان سبھی ساتھ ہوتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کا بھی بھرپور تعاون ملتا ہے۔ سب ساتھ ملکر تہوار مناتے ہیں، کٹھوارا گاؤں قریب دو سو مکانات پر مشتمل ہے اور یہاں سے پہلام ' دسویں محرم ' کی صبح پورا گاؤں تا زیہ ملان کے لیے جاتا ہے۔ گاؤں کے درجنوں ہندو نوجوان اور بچے پیک لگاتے ہیں۔

گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند
گیا کے گاوں میں بھی ایک مسلم نہیں پھر بھی یا حسین کا نعرہ بلند (ETV Bharat)
تازیہ نکالنے کا لیتے ہیں لائسنس گاؤں میں صرف محرم نہیں منایا جاتا بلکہ قانونی کاروائی بھی پوری کی جاتی ہے۔ تازیه نکالنے کے لیے باضابطہ لائسنس تھانہ سے لیا جاتاہے۔ تھانہ انچارج سرفراز امام نے بتایا کہ کٹھوارا گاؤں کے ہندو فرقے کے لوگ تازیہ بنانے کا لائسنس لینے پہنچے تو ہم لوگ بہت خوش ہوئے کہ وہاں کے لوگ آج بھی ذات مذہب سے اوپر اٹھ کر محرم کے تہوار کو آپسی بھائی چارے کے ساتھ مناتے ہیں۔چھوڑنے پر پڑ جاتے ہیں بیمارکٹھوارا گاؤں کے اشوک وشو کرما نے بتایا کہ ان کے پردادا سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ ابھی ان کی چوتھی پیڑھی تازیہ بنانے کا کام کر رہی ہے۔ اس سے پہلے دوسری پیڑھی نے دو چار سالوں تک تازیہ نہیں بنایا اور اس کام کو چھوڑ دیا تھا۔ جس سے گھر کے لوگ ہمیشہ بیمار پڑنے لگے۔ گھر کی برکت ختم ہوگئی تھی۔ اس لیے پھر سے تازیہ بنانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد سے ہم لوگ ہمیشہ امن چین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں ہماری نسل اس کام کو آباد رکھے گی۔ انہوں نے کہاکہ ہماری عقیدت ہے کہ اس محرم کو مناتے ہیں۔ گھر کے بچوں کو بھی محرم کے مہینے کا انتظار ہوتاہے۔ گاوں سے جب جلوس نکلتا ہے تو گاوں کے دوسرے لوگ شربت پانی کا اہتمام کرتے ہیں۔ پوری عقیدت ہوتی ہے اور اس عقیدت پر ہمیں فخر ہےعظیم قربانی کا ہے محرم مہینہ گاؤں کے لوگوں میں دنیش یادو اور لال جی یادو نے بتایا کہ گاؤں میں ہندو فرقے کے سبھی ذاتی کے لوگ بستے ہیں۔ گاؤں میں محرم منانے کی روایت اشوک وشو کرما کے خاندان سے شروع ہوئی ہے۔ لیکن محرم میں گاؤں کے سبھی لوگ عقیدت سے شامل ہوتے ہیں اور سبھی لوگ نذر و نیاز کرواتے ہیں۔ فاتحہ کے لیے دوسرے گاؤں سے مسلم شخص کو بلایا جاتا ہے کیونکہ یہاں پر کوئی مسلم نہیں ہے۔ پچیس تیس برس قبل ایک دو گھر مسلمانوں کے تھے لیکن اب وہ دوسری جگہ جاکر آباد ہوگئے ہیں لیکن انکا آنا جانا لگا ہوتا ہے۔ کوئی بھی وشو کرما خاندان کو محرم منانے سے نہیں روکتا اور نہ ہی کبھی اس پر کوئی تنازع ہوا ہے بلکہ ہم لوگ ان جگہوں پر مثال بھی پیش کرتے ہیں جہاں علاقے میں کہیں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔

لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہمارے گاؤں آکر دیکھیں، ہمارے یہاں ایک بھی مسلم نہیں ہے لیکن ہم محرم اور دیگر تہواروں کو بڑی عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔ وشوکرما نے اپنے گھر کے سامنے ایک چھوٹا سا امام باڑا بھی بنایا ہوا ہے۔ جہاں وہ مٹی رکھنے کی روایت سے محرم کا آغاز کرتے ہیں ۔ اس جگہ پر سبھی لوگ بڑی عقیدت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ گھر کا کوئی بچہ بھی اس جگہ پر چپل جوتے پہن کر نہیں جا سکتا ہے۔ گاؤں کے لوگوں نے کہا کہ یہ ایک عظیم قربانی کا مہینہ ہے۔ اس میں اسلام مذہب کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نواسہ امام حسین علیہ السلام نے برائی کے خاتمے کے لیے اپنی شہادت پیش کی۔ گاوں کے نوجوان جو تعلیم یافتہ ہیں وہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی شہادت کو پڑھتے ہیں۔


گنگا جمنی تہذیب کی ہے مثال
گروا علاقے کے سماجی رکن سیفی خان نے کہا کہ کٹھوارا گاؤں ہندو مسلم اتحاد کا مظہر ہے۔ عقیدت کی مثال اس گاؤں کو کہا جا سکتا ہے۔ محرم کے موقع پر علاقے میں کئی مقامات پر اکثر جھگڑے ہوئے ہیں تو اسوقت بھی اس گاؤں کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی اور کہا کہ اس گاؤں سے لوگ محبت سیکھیں اور یہ دیکھیں کہ کیسے ہم اپنے ملک کو مختلف پھول کا گلدستہ بنا کر قائم دائم رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہاں محرم میں ان روایتی کرتب کا بھی مظاہرہ ہوتاہے جو مسلم آبادی میں محرم کے دوران ہوتے ہیں۔ آج کے وقت میں یہ قابل ستائش کام ہے۔

Last Updated : Jul 16, 2024, 9:48 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.