گیا: بہار میں حال کے گزشتہ تہواروں کے موقع پر فرقہ وارانہ کشیدگی کے معاملے سرخیوں میں رہے ہیں۔ اس میں ضلع گیا بھی اچھوت نہیں ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود بہار میں تہواروں کے موقع پر آپسی بھائی چارے کی بہترین مثال اکثر و پیشتر پیش بھی کی جاتی ہے۔ صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب اور ایک ساتھ ملکر تہوار منانے کی روایت کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ ضلع گیا میں ایک ایسی ہی آپسی بھائی چارے، گنگا جمنی تہذیب کی مثال محرم میں دیکھنے کو ملی ہے۔ ضلع ہیڈ کوارٹر سے قریب تیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گروا بلاک میں ایک گاؤں ' کٹھوارا گاؤں ' ہے۔
اس گاؤں کی مثال اسلیے بھی خاص ہے کیونکہ اس گاؤں میں ایک بھی مسلم گھر نہیں ہے۔ باوجود کہ اس گاؤں میں پوری عقیدت و احترام کے ساتھ امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام اور شہداء کربلا کو خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے اور شہداء کربلا کی یاد میں عام ہوئی محرم کی تمام رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ گاؤں میں ایک بھی مسلم گھر نہیں ہونے کے باوجود محرم کی پہلی تاریخ سے لے کر دسویں تک' یاعلی یا حسین' کے نعروں کی گونج رہتی ہے۔ گاؤں کے درجنوں ہندو فرقے کے نوجوان اور بچے ' پیک ' اپنے کمر میں کھنگرو اور لوہے کی گھنٹی باندھ ' کر گاؤں گاؤں جاتے ہیں اور یاعلی یا حسین کا نعرہ لگاتے ہیں۔ علاقے کے باشندہ سماجی رکن سیفی خان بتاتے ہیں کہ کٹهوارا گاؤں کے ایک ہندو کنبہ سے آنے والے اشوک وشو کرما کی چوتھی نسل ہے جو اپنے گاؤں میں تازیہ بنانے کا کام کرتی ہے۔
محرم کے دس دنوں تک جو بھی تقریب ہوتی ہے اس میں گاؤں کے لوگوں کا بھر پور تعاون ملتا ہے۔ مقامی پولیس اور نتظامیہ سے لے کر پورے گاؤں کے لوگ ساتھ دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے کٹھوارہ گاؤں میں ایک گھر بھی مسلم فرقے کے لوگوں کا نہیں ہونے کے باوجود بھی محرم کے دوران 10 دن تک یا حسین کے نعرے پورے گاؤں میں گونجتے ہیں۔ اشوک وشو کرما اور گاؤں کے ہندوؤں سمیت علاقے کے مسلم سماجی کار کن سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے خصوصی گفتگو کی ہے۔ اس دوران اشوک وشو کرما نے بتایا کہ محرم منانے کی روایت نسل در نسل چلی آرہی ہے۔ ان کے پردادا، دادا اور والد کے بعد اب وہ گزشتہ 20 برسوں سے خود اس تہوار کو منا رہے ہیں۔
انکے یہاں محرم منانے کی روایت 200 برسوں پرانی ہے۔ اشوک وشو کرما نے بتایا کہ اُنہوں نے اپنے بچوں کو بھی تربیت دی ہے کہ وہ اس روایت کو برقرار رکھیں اور ابھی ان کے ساتھ تازیہ بنانے سے لے کر سبھی رسموں میں گھر کے مرد خواتین بچے بوڑھے جوان سبھی ساتھ ہوتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کا بھی بھرپور تعاون ملتا ہے۔ سب ساتھ ملکر تہوار مناتے ہیں، کٹھوارا گاؤں قریب دو سو مکانات پر مشتمل ہے اور یہاں سے پہلام ' دسویں محرم ' کی صبح پورا گاؤں تا زیہ ملان کے لیے جاتا ہے۔ گاؤں کے درجنوں ہندو نوجوان اور بچے پیک لگاتے ہیں۔
لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہمارے گاؤں آکر دیکھیں، ہمارے یہاں ایک بھی مسلم نہیں ہے لیکن ہم محرم اور دیگر تہواروں کو بڑی عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔ وشوکرما نے اپنے گھر کے سامنے ایک چھوٹا سا امام باڑا بھی بنایا ہوا ہے۔ جہاں وہ مٹی رکھنے کی روایت سے محرم کا آغاز کرتے ہیں ۔ اس جگہ پر سبھی لوگ بڑی عقیدت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ گھر کا کوئی بچہ بھی اس جگہ پر چپل جوتے پہن کر نہیں جا سکتا ہے۔ گاؤں کے لوگوں نے کہا کہ یہ ایک عظیم قربانی کا مہینہ ہے۔ اس میں اسلام مذہب کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نواسہ امام حسین علیہ السلام نے برائی کے خاتمے کے لیے اپنی شہادت پیش کی۔ گاوں کے نوجوان جو تعلیم یافتہ ہیں وہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی شہادت کو پڑھتے ہیں۔
گنگا جمنی تہذیب کی ہے مثال
گروا علاقے کے سماجی رکن سیفی خان نے کہا کہ کٹھوارا گاؤں ہندو مسلم اتحاد کا مظہر ہے۔ عقیدت کی مثال اس گاؤں کو کہا جا سکتا ہے۔ محرم کے موقع پر علاقے میں کئی مقامات پر اکثر جھگڑے ہوئے ہیں تو اسوقت بھی اس گاؤں کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی اور کہا کہ اس گاؤں سے لوگ محبت سیکھیں اور یہ دیکھیں کہ کیسے ہم اپنے ملک کو مختلف پھول کا گلدستہ بنا کر قائم دائم رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہاں محرم میں ان روایتی کرتب کا بھی مظاہرہ ہوتاہے جو مسلم آبادی میں محرم کے دوران ہوتے ہیں۔ آج کے وقت میں یہ قابل ستائش کام ہے۔