ممبئی: ہر برس بڑے پیمانے پر ڈی جے تیز آواز کے ساتھ نوجوان جلوس اور دوسری مذہبی تقریبات کے دوران لیکر چلتے ہیں۔۔کچھ برس قبل جلوس کے دوران ڈی جے کی آواز پر ایک بچے نے دم توڑ دیا تھا جس کی وجہ سے غیر سرکاری تنظیمیں اس کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں۔ لیکن انکی آواز ڈی جے کی تیز آواز کے بیچ کہیں گم ہوجاتی ہے۔
محمود الحسن حکیمی انجمن باشندگان بہار کے ذمہ داروں میں سے ہیں تنظیم اس کوشش میں گزشتہ چھ برسوں سے لگی ہوئی ہے کہ جلوس یا دوسری تقریبات کے دوران ڈی جے جیسے خرافات سے بچا جائے۔ حکیمی کہتے ہیں کہ ہم اسے مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہےکہ یہ بات نوجوان دھیرے دھیرے سمجھ سکتے ہیں۔ حکیمی کہتے ہیں کہ ہم اس کے لیے گلی،کوچوں، نکڑ، محلوں میں مسجد میں جاکر اس بیداری مہم کے ذریعے معاشرے کی با اثر شخصیات کے ذریعے اس بات کی اپیل کریں گے تاکہ ڈی جے کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
پروین منڈھے زونل ڈی سی پی ہیں۔ جلوس کے دن اُن کے حدود میں بھی ڈی جے کے شور شرابے کے بیچ وہ عوام سے اپیل کرتے ہیں۔ اس موقع پر پروین منڈھے کہتے ہیں کہ ہمیں سپریم کورٹ کی جانب سےمتعین آواز کے اصولوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کے اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ باوجود اس کے نوجوان ڈی جے کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لئے ممبئی پولیس اُن سے کے خلاف کارروائیاں کرتی ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ جلوس یا دوسری تقریبات قانون کے دائرے میں رہ کر ہی کی جائیں۔
غیر سرکاری تنظیمیں ڈی جے کے خلاف بیداری مہم کا آغاز کر چکی ہیں۔ تنظیم کے ممبران مقامی پولیس تھانے اور ممبئی پولیس کے اعلیٰ افسران سے مل رہے ہیں اور یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس کی نہ تو شریعت میں اجازت ہے اور نہ ہی قانونی اجازت ہے۔ اس کے لیے پولیس سخت ہو اور تنظیم کے کارکنان کے ساتھ اس دوران جب اس کا استعمال نوجوان کر رہے ہوں تو اُن سے سختی سے پیش آئیں اور کاروائی کریں۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ ہر برس کئی کروڑ روپئے اسی طرح سے ضائع کیے جاتے ہیں اس لئے بہتر یہ ہوگا کہ اس پیسے سے غریب مسکین بیواؤں کی کفالت کی جائے۔۔اور جلوس کے دوران پیغمبرِ اسلام ﷺکی تعلیمات پر امن طریقے سے عام کی جائیں تاکہ ہر شخص پیغمبر اسلام ﷺکے بتائے ہوئے راستے پر چلے۔ کیونکہ پیغمبر اسلامﷺ اور ان کی نصیحتیں کسی مخصوص طبقے کے لیے نہیں تھیں بلکہ وہ عالم انسان کے لیے تھیں۔