لکھنو:بڑے منگل کی ابتداء نوابین اودھ نے کی تھی۔ آج بھی اسی جوش و خروش کے ساتھ ہندو طبقے کے لوگ مناتے ہیں۔ معروف مورخ روی بھٹ نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ جب بھی کسی مندر کے بارے میں ہم بات چیت کرتے ہیں تو تاریخی حقائق واضح نہیں ملتے ہیں تاہم عوام کی عقیدت اور کہی سنی باتیں سامنے آتی ہیں جس کی ہم تصدیق نہیں کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا بتایا کہ اودھ کے تیسرے نواب شجاع الدولہ کی بیگم عالیہ جو شادی سے قبل ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھیں۔اتر پردیش کے ضلع برائچ کے کنور ٹھاکر برادری سے تعلق رکھتی تھیں جن کا نام چھتر کنور تھا۔ انہوں نے نواب شجاؤ الدولہ سے شادی کی جس کے بعد اپنا نام تبدیل کر کے بیگم عالیہ رکھ لیا ۔بیگم عالیہ ہنومان کی عقیدت مند تھیں۔ یہی وجہ تھی جب ان کے بطن سے نواب سعادت علی خان کی پیدائش ہوئی تو ان کا نام مرزا منگلو رکھا اور گھر میں ان کو منگلو منگلوں کہہ کے پکارا جاتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ عالیہ بیگم نے علی گنج میں واقع ہنومان مندر کی تعمیر کروائی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے مندر کے گنبد کے اوپر چاند بھی نصب کرایا تھا جو اج بھی لگا ہوا ہے ۔وہیں سے بڑی منگل کی شروعات ہوئی۔اودھ کے لوگ بڑے منگل کے موقع پر لوگوں کو 'پرشاد' کے طور پہ پوڑی سبزی تقسیم کرتے ہیں۔
روی بھٹ کہتے ہیں کہ ایک روایت یہ بھی آتی ہے کہ عالیہ بیگم کے خواب میں آیا کہ ہنومان جی کی مورتی لکھنو کے پولیٹکنک علاقے میں واقع زمین کے اندر ہے۔ لہذا انہوں نے کھدائی شروع کرایا۔ آخر کار وہ مورتی مل گئی۔ اسے ہاتھی کے ذریعے لایا جا رہا تھا لیکن وہ گھومتی ندی سے کچھ پہلے ہی ہاتھیاں بیٹھ گئیں۔اسی جگہ ہنومان کی مندر بنائی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:لکھنو کا سکندر محل آج بھی خواتین مجاہدین آزادی کی یاد تازہ کرتا ہے
روی بھٹ بتاتے ہیں کہ نوابین اودھ نے کئی سیکولر روایات کو فروغ دیا ہے ان میں سے انگرکھا ، دوپلی ٹوپی ، اداب، جیسے متعدد رسم و رواج ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایودھیا میں ہنومان گڑی کی مندر کے لیے زمین نوابین نے دی تھی۔ روی بھٹ کہتے ہیں کہ نظریاتی طور پہ لکھنو کے نوابین شیعہ نظریات کے حامل تھے۔ وہ ہندوؤں سے قریب تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو رسم و رواج کو فروخت دیا۔