نئی دہلی: شعبۂ معاشیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے قومی ترقی کے موضوع پر سہ روزہ قومی کانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا۔ افتتاحی اور اختتامی اجلاس کے علاوہ سہ روزہ ورکشاپ میں کل دس اجلاس ہوئے۔ ڈاکٹر زکریا صدیقی، ڈاکٹر کاشف خان اور ڈاکٹر وسیم اکرم، شعبۂ معاشیات اس ورکشاپ کے خصوصی ماہرین تھے۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر پروفیسر پارتھا سین، سابق ڈائریکٹر ڈی ایس ای اور پروفیسر امریش دوبے، سابق پروفیسر سی ایس آر ڈی، جے این یو نے فرمائی۔ افتتاحی اجلاس کے بعد پروفیسر امیتابھ کندو سابق ڈین اسکول آف سوشل سائنسز، جے این یو نے خصوصی خطبہ ارشاد فرمایا۔ انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز اسکالروں کے مختلف قومی نمائندہ سرویز سے متعلق تشویش کا جواب دیتے ہوئے کیا۔
یہ بھی پڑھیں:
دہلی کے جامعہ نگر میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ پر ورکشاپ کا انعقاد
انھیں ان تشویش سے اتفاق بھی تھا اور وہ پروفیسر پی سی مہالانوبس، پروفیسر بی ایس منہاس جیسے اسکالروں کی تشویش کو سراہا بھی کہ وہ نیشنل سرویز کے نمائندے قومی شماریاتی نظام کا حصہ ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اسکالروں کو جہاں تک ممکن ہو اصلاحات کے لیے آزادانہ طور پر بحث ومباحثہ کرنا چاہیے لیکن قومی شماریاتی نظام کو کوئی سہرا نہ دینا اپنے آپ میں قطعی خلاف منشا بات ہوگی۔ پروفیسر کندو نے علمی اور اعداد وشمار سے متعلق امور میں ’آزادی‘ اور ’بحث و مباحثہ‘ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اخیر میں انھوں نے یہ بات کہتے ہوئے اپنی تقریر پوری کی کہ باوجود تحدیدات کے ہندوستان نے ایک توانا شماریاتی نظام قائم کیا ہے۔
اختتامی تقریب میں پروفیسر سنتھوش مہروترا، سابق چیئر پرسن، سی آئی ایس ایل، جے این یو، پروفیسر زاہد اشرف، ڈین فیکلٹی آف لائف سائنسز، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ممتاز سائنس داں اور صدر شعبۂ معاشیات پروفیسر شاہد احمد موجود تھے۔ شعبۂ معاشیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر پروفیسر اشرف علیان نے اس اجلاس کی صدارت کی۔ پروفیسر سنتھوش نے متعلقہ اعداد و شمار کی مدد سے ہندوستانی معیشت کی موجودہ حالت کا ایک مکمل جائزہ پیش کیا۔ اپنی تقریر کے دوران انھوں نے متعدد معاشی اشاریوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا۔ اخیر میں پروفیسر مہروترا نے شرکا سے اپیل کی کہ اعداد و شمار کو ترتیب دیتے وقت محتاط رہیں اور بامعنی نتائج اخذ کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ اس کے علاوہ الگ الگ ڈاٹا بیسوں کی تکنیک اور ان کے طریقے بتائے جس سے شرکا کو حوصلہ ملا کہ وہ اپنے نتائج کی مزید بہتر تفہیم کے لیے ان اپروچیز کو سمجھیں گے۔
اس کے بعد تقریر میں پروفیسر زاہد اشرف نے آزادی کے بعد سے ہندوستان کے ترقیاتی سفر کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا۔ ماضی پر اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک نے بڑی تعداد میں دانشور پیدا کیے ہیں جو عالمی سطح پر متعدد پہل کررہے ہیں۔ مزید برآں پروفیسر اشرف نے حالیہ تکنیکی ترقیوں اور روزمرہ کی زندگی کے ہر پہلو پر پڑنے والے اس کے اثرات پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر شاہد احمد نے اپنی مختصر لیکن جامع تقریر میں شرکا کے ساتھ بنیادی باتیں بتائیں اور ہر رسرچ اسکالر کو دوران تحقیق جن بنیادی باتوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اس سلسلہ میں بات کی۔ انھوں نے توانا نظری فریم ورک کی سخت ضرورت کو اجاگر کیا کہ یہ کسی بھی تجرباتی مطالعہ کی ریسرچ کی ساکھ کے لیے ضروری ہے۔
تقریباً سبھی مدعو مقررین نے اس بات کی ستائش کی کہ اس ورکشاپ میں انتہائی الگ الگ پس منظروں کے شرکا شامل ہوئے ہیں۔ جے این یو، ڈی یو، جے ایم آئی، آئی آئی ٹیز، این آئی ٹیز، آئی آئی ایس ای آرز، بی ایچ یو، وی آئی ٹی، سینٹرل یونیورسٹی آف راجستھان اور گجرات اور ریاستوں کی یونیورسٹیوں کے شرکا اس ورکشاپ میں شریک ہورہے ہیں۔ پروگرام کے دوران شرکا کی جانب سے ملنے والے تاثرات اور ان کے پرجوش جوابات اس بات کا پختہ ثبوت ہیں کہ شرکا کی توقعات اور ان کی ضروریات اس ورکشاپ کی وساطت سے پوری ہورہی ہیں۔ اس کے بعد معزز مہمانوں کی موجودگی میں شرکائے ورکشاپ کو اسناد تقسیم کی گئیں۔ ورکشاپ کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر وسیم اکرم نے حاضرین کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا اور اس کے ساتھ پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔