ETV Bharat / state

مظفر نگر میں مسجد کو دشمن کی ملکیت قرار دیا گیا - MUZAFFARNAGAR MOSQUE

مسجد کے متولی نے بتایا کہ سبھی ضروری دستاویز ہونے کے باوجود دشمن کی ملکیت قرار دینا سمجھ سے پرے ہے۔

مظفر نگر میں مسجد کو دشمن کی ملکیت قرار دیا گیا
مظفر نگر میں مسجد کو دشمن کی ملکیت قرار دیا گیا (ETV Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 7, 2024, 10:14 PM IST

مظفر نگر: یوپی میں سنبھل جامع مسجد کے بعد مظفر نگر کی ایک اور مسجد کو لیکر کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔ مظفر نگر کے ریلوے اسٹیشن کے سامنے واقع مسجد کی عمارت کے خلاف ہندو شکتی تنظیم کی جانب سے شکایت کرنے کے بعد تحقیقات کی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے بھی جائیداد کو دشمن کی ملکیت قرار دے دیا۔ بتایا جارہا ہے کہ یہ جائیداد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی کے والد رستم علی کے نام پر رجسٹرڈ ہے جبکہ اس زمین پر 1918 سے مسجد قائم ہے جسے وقف کی جائیداد بتایا جارہا ہے۔

مظفر نگر میں مسجد کو دشمن کی ملکیت قرار دیا گیا (ETV Bharat)


شکایت کنندہ سنجے اروڑہ کا الزام ہے کہ مسجد کو ہوٹل کی طرح بنایا گیا ہے، مظفر نگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نقشہ پاس کے بغیر مسجد پر تعمیراتی کام کیا گیا، مسجد کے علاوہ اسی زمین پر کچھ دکانیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کے حالیہ تحقیقات کے بعد آنے والے نئے حکم نامے کے مطابق یہ جائیداد سجاد علی ولد رستم علی خان کی زمین ہے جو تقسیم ہند کے دوران بھارت چھوڑ کر پاکستان چلے گئے تھے۔ سجاد علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے بھائی ہیںتنظیم کی شکایت کے بعد گذشتہ ڈیڑھ سال سے اس پورے معاملے کی جانچ ضلع مجسٹریٹ کی طرف سے بنائی گئی ٹیم کررہی تھی۔

اس پورے معاملے میں مسجد کے متولی مولانا مجیب الاسلام نے کہا کہ ریلوے اسٹیشن والی مسجد 100 سال سے زیادہ پرانی ہے، اس مسجد کو نواب رستم علی خان نے بنوایا تھا، رستم علی خان کی پیدائش ہندوستان میں 1863 میں ہوئی تھی اور 1918 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ 1918 میں ہی یہ مسجد بنوائی گئی تھی کیونکہ نواب رستم علی خان کے دو بھائی نواب عمر دراز علی خان اور نواب عظمت علی خان تھے تاہم یہ مسجد رستم علی خان کے حصے میں آئی تھی۔ پہلے اس مسجد کے اندر ایک مسافر خانہ تھا بعد میں کسی وجہ سے مسافر خانہ بند کر دیا گیا لیکن مسجد وہاں پر پہلے سے موجود تھی اور یہ مسجد وقف میں درج ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سنبھل تشدد کے بعد دوسرے جمعہ کی نماز پرامن طریقے سے ادا کی گئی

متولی نے بتایا کہ اب کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ہے (شترو سمپتی) دشمنوں کی جائیداد ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ 1918 میں جب بھارت میں رہتے ہوئے نواب رستم علی خان کا انتقال ہوگیا اور انہوں نے اس جائیداد کو مسجد کےلئے وقف کردیا، تاہم اب وقف کرنے والا بھی اس زمین کا مالک نہیں کہلاتا اور یہ زمین اب ہمیشہ ہمیشہ کے مسجد بنی رہے گی۔ جب رستم علی خان دنیا سے چلے گئے تب تک تو پاکستان وجود میں بھی نہیں ایا تھا۔ ہمارے پاس وہ سارے ایویڈنس موجود ہے جو اس مسجد کو وقف قرار دینے کےلئے کافی ہے۔ 1936 کے بعد سے مسجد وقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کا فیصلہ سمجھ سے پرے ہے۔ انہوں نے ہائیکورٹ جانے کا اشارہ دیا ہے۔

مظفر نگر: یوپی میں سنبھل جامع مسجد کے بعد مظفر نگر کی ایک اور مسجد کو لیکر کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔ مظفر نگر کے ریلوے اسٹیشن کے سامنے واقع مسجد کی عمارت کے خلاف ہندو شکتی تنظیم کی جانب سے شکایت کرنے کے بعد تحقیقات کی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے بھی جائیداد کو دشمن کی ملکیت قرار دے دیا۔ بتایا جارہا ہے کہ یہ جائیداد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی کے والد رستم علی کے نام پر رجسٹرڈ ہے جبکہ اس زمین پر 1918 سے مسجد قائم ہے جسے وقف کی جائیداد بتایا جارہا ہے۔

مظفر نگر میں مسجد کو دشمن کی ملکیت قرار دیا گیا (ETV Bharat)


شکایت کنندہ سنجے اروڑہ کا الزام ہے کہ مسجد کو ہوٹل کی طرح بنایا گیا ہے، مظفر نگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نقشہ پاس کے بغیر مسجد پر تعمیراتی کام کیا گیا، مسجد کے علاوہ اسی زمین پر کچھ دکانیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کے حالیہ تحقیقات کے بعد آنے والے نئے حکم نامے کے مطابق یہ جائیداد سجاد علی ولد رستم علی خان کی زمین ہے جو تقسیم ہند کے دوران بھارت چھوڑ کر پاکستان چلے گئے تھے۔ سجاد علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے بھائی ہیںتنظیم کی شکایت کے بعد گذشتہ ڈیڑھ سال سے اس پورے معاملے کی جانچ ضلع مجسٹریٹ کی طرف سے بنائی گئی ٹیم کررہی تھی۔

اس پورے معاملے میں مسجد کے متولی مولانا مجیب الاسلام نے کہا کہ ریلوے اسٹیشن والی مسجد 100 سال سے زیادہ پرانی ہے، اس مسجد کو نواب رستم علی خان نے بنوایا تھا، رستم علی خان کی پیدائش ہندوستان میں 1863 میں ہوئی تھی اور 1918 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ 1918 میں ہی یہ مسجد بنوائی گئی تھی کیونکہ نواب رستم علی خان کے دو بھائی نواب عمر دراز علی خان اور نواب عظمت علی خان تھے تاہم یہ مسجد رستم علی خان کے حصے میں آئی تھی۔ پہلے اس مسجد کے اندر ایک مسافر خانہ تھا بعد میں کسی وجہ سے مسافر خانہ بند کر دیا گیا لیکن مسجد وہاں پر پہلے سے موجود تھی اور یہ مسجد وقف میں درج ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سنبھل تشدد کے بعد دوسرے جمعہ کی نماز پرامن طریقے سے ادا کی گئی

متولی نے بتایا کہ اب کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ہے (شترو سمپتی) دشمنوں کی جائیداد ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ 1918 میں جب بھارت میں رہتے ہوئے نواب رستم علی خان کا انتقال ہوگیا اور انہوں نے اس جائیداد کو مسجد کےلئے وقف کردیا، تاہم اب وقف کرنے والا بھی اس زمین کا مالک نہیں کہلاتا اور یہ زمین اب ہمیشہ ہمیشہ کے مسجد بنی رہے گی۔ جب رستم علی خان دنیا سے چلے گئے تب تک تو پاکستان وجود میں بھی نہیں ایا تھا۔ ہمارے پاس وہ سارے ایویڈنس موجود ہے جو اس مسجد کو وقف قرار دینے کےلئے کافی ہے۔ 1936 کے بعد سے مسجد وقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کا فیصلہ سمجھ سے پرے ہے۔ انہوں نے ہائیکورٹ جانے کا اشارہ دیا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.