ETV Bharat / state

مطلقہ خاتون کو گزارہ بھتہ دینے کا فیصلہ اسلامی شریعت میں مداخلت: مسلم پرسنل لا بورڈ - Muslim Personal Law Board

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے پریس کانفرنس کرکے آج حال ہی میں سپریم کورٹ کے مسلم مطلقہ خاتون کو سابق شوہر سے گزارہ بھتہ حاصل کرنے کے فیصلہ پر سخت اعتراض ظاہر کیا اور اسے شریعت میں مداخلت قرار دیا۔

سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اسلامی شریعت میں مداخلت
سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اسلامی شریعت میں مداخلت (etv bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 15, 2024, 2:41 PM IST

سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اسلامی شریعت میں مداخلت (etv bharat)

نئی دہلی : پریس کلب آف انڈیا میں منعقد پریس کانفرنس کے دوران مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اس بات کا اعادہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔

لہذا حتی الامکان ازدواجی زندگی کو بنائے رکھنے کے لئے قرآن میں تاکید کی گئی ہے۔ طلاق سے پہلے معاملات کو درست رکھنے سے متعلق بھی قرآن مجید میں ہدایات موجود ہیں۔ لیکن تمام کوششوں کے باوجود ساتھ رہنا دشوار ہو جائے تو احسن طریقہ سے جدائی ہی ایک معقول اور قابل عمل راستہ رہ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں جس طرح ہندوں کو اپنے پرسنل لا ہندو کو لاء کے مطابق زندگی گزارنے کا فن ہے اس طرح مسلمانوں کے لئے شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 موجود ہے۔ ملک کے دستور نے بھی تمام مذہبی اکائیوں کو اپنے مذہب کے مطابق ( آرٹیکل 25 ) زندگی گزرانے کا بنیادی حق فراہم کیا ہے۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک کے لئے یونیفارم سول کوڈ بالکل موزوں اور مناسب نہیں ہے، نیز اس طرح کی کوششیں ملک کے دستور کی روح کے بھی منافی ہیں۔ اقلیتوں کو دستور میں جوضمانتیں دی گئی ہیں۔یونیفارم سول کوڈ اس کو ختم کر کے رکھ دے گا۔اس لئے نہ مرکزی حکومت کو نہ کسی ریاستی حکومت کو یونیفارم سول کوڈ کو نافذکر نے کی بات کر نی چاہیے۔ یہ مسلمانوں کے لئے نا قابل قبول ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈ یو سی سی میں لیون ریلیشن شپ کو بھی جائز قرار دیا گیاہے جو نہ صرف اخلاقاََ بلکہ مذہباََ بھی غلط ہے۔مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان نے مزید کہا کہ اوقاف دینی اور خیراتی مقاصد کے لئے مسلمانوں کے دیئے ہوئے مقدس اثاثے ہیں ۔مسلمان ہی اس کے متولی و منتظم ہوتے ہیں اور وہی اس سے استفادہ کے مستحق بھی ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اوقاف کی بہت سی اراضی حکومت کے استعمال میں ہیں اس لئے اوقاف کی جائیداد بازار کی شرح ( مارکیٹ ریٹ) کے لحاظ سے ان املاک کا کرایہ ادا کرے اور منشاء وقف اور قانون شریعت کے مطابق اس رقم کو خرچ کر ے تاکہ مسلمان اپنے بزرگوں کی محفوظ کی ہو ئی اس دولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔

اسلام کا تصور یہ ہے کہ جب کوئی چیز وقف کر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے، مسلمان خود بھی اس کو اپنی خواہش کے مطابق اپنی ذات پر استعمال نہیں کر سکتا، بلکہ اس کو مقررہ مصرف میں ہی استعمال کر نا واجب ہے- یہ شریعت کا حکم بھی ہے اور ملکی قانون بھی اس کو تسلیم کر تا ہے- چنانچہ آزادی کے پہلے ہی وقف کا قانون بنا، مختلف مواقع پر اس میں ترمیمات ہو تی رہیں، یہاں تک کہ 2013 میں قانون نے آخری شکل اختیار کی۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کر تا ہے کہ وقف کے اس قانون پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کیا جائے اور وقف بورڈ کو اپنی املاک کے حصول کے لئے عدالتی اختیارات دئے جائیں؛ تاکہ وہ وقف کی املاک پر ناجائز قبضوں کو ہٹا سکیں۔ انھوں نے کہا کہ ال انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ قانون وقف کو منسوخ کر نے کےہر اقدام کی سختی سے مذمت کر تا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کا اجلاس: گیانواپی مسجد، ماب لنچنگ، یونیفارم سول کوڈ سمیت متعدد مسائل پر غور و خوص

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کے ترجمان نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے، جہاں اسرائیل کی شکل میں ایک غاصب قوت ملک کے اصل باشندوں کو جلاوطن کر نے پر تلی ہو ئی ہے۔ اس نے جبروظلم کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔وہ مسلسل نسل کشی اور وحشیانہ مظالم کا ارتکاب کر رہا ہے۔

اس جنگ کی ابتداء 7 اکتوبر 2023 سے نہیں، بلکہ جون1967 سے ہو ئی ہے، جب اسرائیل کسی قانونی جواز کے بغیر پورے فلسطین، مغربی کنارہ، غزہ اور مسلمانوں کی مقدس مسجد مسجد اقصیٰ پر بھی قابض ہو گیا تھا- اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل بارہا فیصلہ کر چکی ہے کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں کو خالی کر دے، مگر امریکہ اور برطانیہ جیسی استعاری طاقتوں کی شہہ پر اسرائیل نے اب تک اس پر عمل نہیں کیا۔

سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اسلامی شریعت میں مداخلت (etv bharat)

نئی دہلی : پریس کلب آف انڈیا میں منعقد پریس کانفرنس کے دوران مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اس بات کا اعادہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔

لہذا حتی الامکان ازدواجی زندگی کو بنائے رکھنے کے لئے قرآن میں تاکید کی گئی ہے۔ طلاق سے پہلے معاملات کو درست رکھنے سے متعلق بھی قرآن مجید میں ہدایات موجود ہیں۔ لیکن تمام کوششوں کے باوجود ساتھ رہنا دشوار ہو جائے تو احسن طریقہ سے جدائی ہی ایک معقول اور قابل عمل راستہ رہ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں جس طرح ہندوں کو اپنے پرسنل لا ہندو کو لاء کے مطابق زندگی گزارنے کا فن ہے اس طرح مسلمانوں کے لئے شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 موجود ہے۔ ملک کے دستور نے بھی تمام مذہبی اکائیوں کو اپنے مذہب کے مطابق ( آرٹیکل 25 ) زندگی گزرانے کا بنیادی حق فراہم کیا ہے۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک کے لئے یونیفارم سول کوڈ بالکل موزوں اور مناسب نہیں ہے، نیز اس طرح کی کوششیں ملک کے دستور کی روح کے بھی منافی ہیں۔ اقلیتوں کو دستور میں جوضمانتیں دی گئی ہیں۔یونیفارم سول کوڈ اس کو ختم کر کے رکھ دے گا۔اس لئے نہ مرکزی حکومت کو نہ کسی ریاستی حکومت کو یونیفارم سول کوڈ کو نافذکر نے کی بات کر نی چاہیے۔ یہ مسلمانوں کے لئے نا قابل قبول ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈ یو سی سی میں لیون ریلیشن شپ کو بھی جائز قرار دیا گیاہے جو نہ صرف اخلاقاََ بلکہ مذہباََ بھی غلط ہے۔مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان نے مزید کہا کہ اوقاف دینی اور خیراتی مقاصد کے لئے مسلمانوں کے دیئے ہوئے مقدس اثاثے ہیں ۔مسلمان ہی اس کے متولی و منتظم ہوتے ہیں اور وہی اس سے استفادہ کے مستحق بھی ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اوقاف کی بہت سی اراضی حکومت کے استعمال میں ہیں اس لئے اوقاف کی جائیداد بازار کی شرح ( مارکیٹ ریٹ) کے لحاظ سے ان املاک کا کرایہ ادا کرے اور منشاء وقف اور قانون شریعت کے مطابق اس رقم کو خرچ کر ے تاکہ مسلمان اپنے بزرگوں کی محفوظ کی ہو ئی اس دولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔

اسلام کا تصور یہ ہے کہ جب کوئی چیز وقف کر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے، مسلمان خود بھی اس کو اپنی خواہش کے مطابق اپنی ذات پر استعمال نہیں کر سکتا، بلکہ اس کو مقررہ مصرف میں ہی استعمال کر نا واجب ہے- یہ شریعت کا حکم بھی ہے اور ملکی قانون بھی اس کو تسلیم کر تا ہے- چنانچہ آزادی کے پہلے ہی وقف کا قانون بنا، مختلف مواقع پر اس میں ترمیمات ہو تی رہیں، یہاں تک کہ 2013 میں قانون نے آخری شکل اختیار کی۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کر تا ہے کہ وقف کے اس قانون پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کیا جائے اور وقف بورڈ کو اپنی املاک کے حصول کے لئے عدالتی اختیارات دئے جائیں؛ تاکہ وہ وقف کی املاک پر ناجائز قبضوں کو ہٹا سکیں۔ انھوں نے کہا کہ ال انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ قانون وقف کو منسوخ کر نے کےہر اقدام کی سختی سے مذمت کر تا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کا اجلاس: گیانواپی مسجد، ماب لنچنگ، یونیفارم سول کوڈ سمیت متعدد مسائل پر غور و خوص

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کے ترجمان نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے، جہاں اسرائیل کی شکل میں ایک غاصب قوت ملک کے اصل باشندوں کو جلاوطن کر نے پر تلی ہو ئی ہے۔ اس نے جبروظلم کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔وہ مسلسل نسل کشی اور وحشیانہ مظالم کا ارتکاب کر رہا ہے۔

اس جنگ کی ابتداء 7 اکتوبر 2023 سے نہیں، بلکہ جون1967 سے ہو ئی ہے، جب اسرائیل کسی قانونی جواز کے بغیر پورے فلسطین، مغربی کنارہ، غزہ اور مسلمانوں کی مقدس مسجد مسجد اقصیٰ پر بھی قابض ہو گیا تھا- اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل بارہا فیصلہ کر چکی ہے کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں کو خالی کر دے، مگر امریکہ اور برطانیہ جیسی استعاری طاقتوں کی شہہ پر اسرائیل نے اب تک اس پر عمل نہیں کیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.