ETV Bharat / state

وقف ترمیمی بل کے خلاف مسلم تنظیموں کو منظم ہوکر مہم چلانے کی ضرورت، سید حبیب سرمست - Waqf Amendment Bill

وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم بل کے موضوع پر گلبرگہ ضلع وقف مشاورتی کمیٹی کے چیئرمین سید حبیب سرمست سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے خصوصی گفتگو کی۔ وقف ایکٹ میں ترمیمی بل کا مقصد کیا؟ مسلم‌ کمیونٹی کو ان کے اثاثوں، زمین اور مذہبی امور کی آزادی سے محروم کرنا تو نہیں ہے؟ ان تمام پہلوؤں پر انہوں نے اظہار خیال کیا۔

Muslim organizations need to organize and campaign against the Waqf Amendment Bill: Syed Habeeb Sarmast
سید حبیب سرمست گلبرگہ کے ساتھ ای ٹی وی کی خصوصی گفتگو (ETV Bharat Urdu)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Aug 12, 2024, 4:17 PM IST

Updated : Aug 12, 2024, 4:41 PM IST

گلبرگہ: مرکزی حکومت وقف ترمیمی بل 2024 کے ذریعے ملک میں وقف بورڈ کی جائیداد کو لے کر خاص تبدیلیاں کر نے جاری ہے۔ اس معاملے پر گلبرگہ ضلع وقف مشاورتی کمیٹی کے چیئرمین سید حبیب سرمست نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت وقف املاک کی حیثیت اور نوعیت کو تبدیل کرنا چاہتی ہے تاکہ ان جائیدادوں پر آسانی سے قبضہ کیا جاسکے اور مسلم وقف کی حیثیت کو ختم کیا جاسکے۔ ہم اس ترمیم کو کبھی قبول نہیں کر سکتے۔ وقف املاک مسلمانوں کے آباء و اجداد کا عطیہ ہے۔ یہ جائیدادیں مذہبی اور مسلم فلاحی کاموں کے لیے وقف کی گئی ہیں۔ حکومت نے ان جائیدادوں کے لیے وقف ایکٹ نافذ کیا ہے۔

سید حبیب سرمست گلبرگہ کے ساتھ ای ٹی وی کی خصوصی گفتگو (ETV Bharat Urdu)

مرکزی حکومت نے وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کر ہی دیا ہے۔ یہ ترمیمی بل 2024 آئین میں دیے گئے حقوق کے خلاف اور بہت سی خامیوں کا مجموعہ ہے۔ ان خامیوں میں وقف ترمیمی بل بغیر غور و فکر کے بنایا گیا اور پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ اوقاف زیادہ تر مسلمانوں کے ہیں، اس کا معاملہ مسلم سماج سے ہے، اس لیے پہلے سے جاری وقف ایکٹ میں ترمیم کے وقت مسلم سماج کی ملی، مذہبی اور سماجی اہم شخصیات سے مشورہ کی ضرورت تھی۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔اور بغیر مسلم سماج کے مشورہ کے پہلے سے جاری قانون میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پیش کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے ترمیمی بل بہت سی خامیوں کا مجموعہ بن گیا ہے۔

حالانکہ اسلامی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص کبھی اپنی جائیداد وقف کرسکتا ہے۔ اب حکومت طے کرے گی کہ وقف سے ہونے والی رقم کہاں خرچ ہوگی۔ حالانکہ اسلامی قانون کے مطابق وقف کی آمدنی صرف اسی مد میں خرچ کی جا سکتی ہے جسے وقف کرنے والے واقف نے طے کیا ہو۔ وقف ترمیمی بل میں یہ بھی شامل ہے کہ وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ کے ممبران غیر مسلم بھی ہوسکتے ہیں۔ ترمیمات میں یہ بھی شامل ہے کہ ضلع مجسٹریٹ فیصلہ کرے گا کہ کون جائداد وقف ہے۔ اور کون وقف نہیں، نیز اس کا فیصلہ آخری ہوگا۔ ترمیمات میں ریاستی حکومت کو اختیار نہیں رہے گیا۔ وقف کو اب صرف مرکزی حکومت کے ہاتھ میں رہے گا۔ کہ وہ جسے چاہے وقف بورڈ کا ممبر بنائے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ممبر مسلمان ہی ہو۔
ترمیمات میں یہ بھی شامل ہے کہ واقف کے ذریعہ کسی کو زبانی طور پر متولی متعین کرنا قابل قبول نہیں ہو گا۔ اس ترمیمی بل میں جو ترمیمات شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سی ترمیم ملک کے آئین اور مسلمانوں کے عائلی قوانین سے متصادم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس ترمیمی بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا، تو ملک کی مختلف مسلم تنظیموں میں ناراضگی دیکھی جارہی ہے۔‌ اس لیے انھوں نے مرکزی حکومت سے اس ترمیم بل پر نظر ثانی کرنے اور وقف جائیداد کے تحفظ کے لیے کام کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے تمام مسلم تنظیموں کو اور مسلم رہنماؤں کو ایک ہوکر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مرکزی حکومت کے وقف ترمیم بل کی حیدر علی باغبان نے کی مذمت - Waqf Amendment Bill

گلبرگہ: مرکزی حکومت وقف ترمیمی بل 2024 کے ذریعے ملک میں وقف بورڈ کی جائیداد کو لے کر خاص تبدیلیاں کر نے جاری ہے۔ اس معاملے پر گلبرگہ ضلع وقف مشاورتی کمیٹی کے چیئرمین سید حبیب سرمست نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت وقف املاک کی حیثیت اور نوعیت کو تبدیل کرنا چاہتی ہے تاکہ ان جائیدادوں پر آسانی سے قبضہ کیا جاسکے اور مسلم وقف کی حیثیت کو ختم کیا جاسکے۔ ہم اس ترمیم کو کبھی قبول نہیں کر سکتے۔ وقف املاک مسلمانوں کے آباء و اجداد کا عطیہ ہے۔ یہ جائیدادیں مذہبی اور مسلم فلاحی کاموں کے لیے وقف کی گئی ہیں۔ حکومت نے ان جائیدادوں کے لیے وقف ایکٹ نافذ کیا ہے۔

سید حبیب سرمست گلبرگہ کے ساتھ ای ٹی وی کی خصوصی گفتگو (ETV Bharat Urdu)

مرکزی حکومت نے وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کر ہی دیا ہے۔ یہ ترمیمی بل 2024 آئین میں دیے گئے حقوق کے خلاف اور بہت سی خامیوں کا مجموعہ ہے۔ ان خامیوں میں وقف ترمیمی بل بغیر غور و فکر کے بنایا گیا اور پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ اوقاف زیادہ تر مسلمانوں کے ہیں، اس کا معاملہ مسلم سماج سے ہے، اس لیے پہلے سے جاری وقف ایکٹ میں ترمیم کے وقت مسلم سماج کی ملی، مذہبی اور سماجی اہم شخصیات سے مشورہ کی ضرورت تھی۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔اور بغیر مسلم سماج کے مشورہ کے پہلے سے جاری قانون میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پیش کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے ترمیمی بل بہت سی خامیوں کا مجموعہ بن گیا ہے۔

حالانکہ اسلامی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص کبھی اپنی جائیداد وقف کرسکتا ہے۔ اب حکومت طے کرے گی کہ وقف سے ہونے والی رقم کہاں خرچ ہوگی۔ حالانکہ اسلامی قانون کے مطابق وقف کی آمدنی صرف اسی مد میں خرچ کی جا سکتی ہے جسے وقف کرنے والے واقف نے طے کیا ہو۔ وقف ترمیمی بل میں یہ بھی شامل ہے کہ وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ کے ممبران غیر مسلم بھی ہوسکتے ہیں۔ ترمیمات میں یہ بھی شامل ہے کہ ضلع مجسٹریٹ فیصلہ کرے گا کہ کون جائداد وقف ہے۔ اور کون وقف نہیں، نیز اس کا فیصلہ آخری ہوگا۔ ترمیمات میں ریاستی حکومت کو اختیار نہیں رہے گیا۔ وقف کو اب صرف مرکزی حکومت کے ہاتھ میں رہے گا۔ کہ وہ جسے چاہے وقف بورڈ کا ممبر بنائے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ممبر مسلمان ہی ہو۔
ترمیمات میں یہ بھی شامل ہے کہ واقف کے ذریعہ کسی کو زبانی طور پر متولی متعین کرنا قابل قبول نہیں ہو گا۔ اس ترمیمی بل میں جو ترمیمات شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سی ترمیم ملک کے آئین اور مسلمانوں کے عائلی قوانین سے متصادم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس ترمیمی بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا، تو ملک کی مختلف مسلم تنظیموں میں ناراضگی دیکھی جارہی ہے۔‌ اس لیے انھوں نے مرکزی حکومت سے اس ترمیم بل پر نظر ثانی کرنے اور وقف جائیداد کے تحفظ کے لیے کام کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے تمام مسلم تنظیموں کو اور مسلم رہنماؤں کو ایک ہوکر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مرکزی حکومت کے وقف ترمیم بل کی حیدر علی باغبان نے کی مذمت - Waqf Amendment Bill

Last Updated : Aug 12, 2024, 4:41 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.