نئی دہلی: ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے مطالبہ کیا ہے کہ مختار انصاری کی حراست میں موت کی اعلیٰ سطحی جانچ کرائی جائے۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا کہ اترپردیش میں یکے بعد دیگر دو مسلم سیاست داں اور سابق ممبر اسمبلی کی پولیس حراست میں موت متعدد شبہات کو جنم دیتی ہے۔ ابھی چند ماہ قبل عتیق احمد کی پولیس کسٹڈی میں ہوئی موت کی تحقیقات کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی کہ باندہ کی سابق ممبر اسمبلی اور مشرقی اترپردیش کے دبنگ سیاست دان مختار انصاری کی دوران حراست موت ہو گئی۔ ان دونوں اموات سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ اترپردیش سے دبنگ مسلم سیاست دانوں کو میدان سے ہٹایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 21 مارچ کو مختار انصاری نے بارہ بنکی کی ایم پی ایم ایل اے عدالت میں درخواست دے کر کہا تھا کہ19 مارچ کو ان کے کھانے میں زہر ملایا گیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی بہت زیادہ طبیعت خراب ہو گئی تھی تاہم عدالت کی طرف سے نامزد دو ڈاکٹروں کی ٹیم نے جیل انتظامیہ کو بتایا کہ ان کی طبیعت روزہ رکھنے کی وجہ سے خراب ہو رہی ہے اور جیل سپرنٹنڈنٹ نے ہلکا زہر دینے کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ اس سے قبل بھی مختار انصاری یہ خدشہ ظاہر کر چکے تھے کہ ان کو زہر دے کر مارا جا سکتا ہے۔ عدالت نے ان الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس جیل انتظامیہ کی رپورٹ پر بھروسہ کر تی رہی جس میں زہر دینے کے الزام کو غلط بتایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کو پولیس کی موجودگی میں بندوق برداروں نے جان سے مار دیا تھا۔ پولیس نے عتیق کے معاملہ میں جس لاپروائی کا مظاہرہ کیا تھا وہ بھی اس شبہ کو تقویت پہنچاتا ہے کہ یہ سب کچھ دانستہ ہوا تھا۔ ایک اور دبنگ سیاست داں اور سابق ریاستی وزیر، اعظم خان کو جس طرح بے بنیاد الزامات کے تحت مسلسل حراست میں رکھا جا رہا ہے وہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ مسلمانوں کو ریاست میں دانستہ طور پر بے وقعت اور کمزور کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مختار انصاری کے بیٹے عمر انصاری نے مقامی انتظامیہ سمیت ریاستی حکومت پر بھی جیل میں قتل کر نے کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں اور خود مختار انصاری نے بھی متعدد بار جیل انتظامیہ پر سلو پوائزن دینے کا الزام لگایا تھا۔ ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ مختار انصاری کی پراسرار اور مخدوش حالات میں موت، ان کے بیٹے کا جیل انتظامیہ پر سلو پوائزن دینے کا الزام اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس پورے واقعہ کی ہائی کورٹ کے سٹنگ جج کی نگرانی میں اعلیٰ سطحی جانچ کرائی جائے اور اگر یہ الزام ثابت ہو جاتا ہے تو جیل انتظامیہ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔