بیدر: مولانا عبدالغنی خان حسامی نے کہاکہ زکوۃ مالی عبادت ہے جب کہ نماز جسمانی عبادت ہے جیسے نماز پڑھنا فرض ہے، ویسے زکوۃ دینا بھی فرض ہے۔ زکوۃ صاحب نصاب ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا کی رقم تک پہنچ جاتی ہے تو پھر وہ مالک نصاب ہوتا ہے۔ اس پر زکوۃ دینا فرض ہے۔
اہم مسئلہ اس میں یہ بھی ہے جیسے زکوۃ دینا فرض ہے، اس کا نکالنا فرض ہے۔ زکوۃ کو زکوۃ اس لیے کہتے ہیں جس سے مال پاک ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زکوۃ اللہ کے حکم کی تکمیل بھی ہے۔ اللہ کے بندوں کے حقوق بھی ہیں زکوۃ نکالنے سے اللہ کے حکم کی پابجائی بھی ہے اور اللہ کے بندوں کی حقوق کی ادائیگی بھی ہے۔ ہمارے مال میں مال کے چالیسویں حصے پر غریب غرباء کا حق ہے۔ اگر ہم مال کی زکوۃ نہیں نکالیں گے تو پورا مال ناپاک رہے گا۔ پھر اس مال کو ہم استعمال کرتے ہیں تو ہم ہماری نماز اور روزہ بھی قبول نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا ہے کہ نماز اور روزے کی قبولیت کا دارومدار مال حلال پر ہے۔ رزق کے حلال پر ہے۔ ہمارا کمایا ہو مال یقیناً ہمارا ہے لیکن اس میں سال گزرنے کے بعد 40واں حصہ غریب غرباء کا حق ہے۔ ان کا یہ حق مستحق تک پہنچانے سے ہمارے ذمے کا یہ فریضہ ختم ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اللہ نے صدقة الفطر غریب مساکین کے لیے ہی بنایا ہے: مولانا عمران رحیمی - Ramadan 2024
جیسے چار رکعت نماز کے بجائے تین رکعت دو رکعت لمسم پڑھنے سے نماز نہیں ہوتی۔ اسی طرح مال کا 40واں حصہ اور مال بھی نقد تجارت یا سونا چاندی ضروریات استمال سے زائد جو سامان ہے اس پر زکوۃ ہے استعمال کی چیزوں پر زکوۃ نہیں ہے جسے گاڑی، موبائل اور گھڑی ہے۔ اگر ہم مکان بنانے کے لیے پلاٹ خریدے ہیں۔ اس میں زکوۃ نہیں ہے لیکن پلاٹ بیچنے کی نیت سے ہم خرید رہے ہیں تو پھر اس میں بھی زکوۃ ہے، وہ بھی مال تجارت ہے۔ مال کا 40واں حصہ غرباء کا حق ہے۔