حیدرآباد: مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے طلباء نے پیر 7 اکتوبر کو اسرائیل-حماس تنازعہ شروع ہونے کے ایک سال کے موقع پر یکجہتی مارچ نکالا۔ طلباء نے جارحیت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو ان کی "غیر عملی" پر سخت نکتہ چینی کی۔
پی ایچ ڈی سکالر طلحہ منان نے فلسطین میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور عالمی برادری کی جانب سے ردعمل ظاہر کرنے میں ناکامی پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم کے باعث مغرب، بین الاقوامی جنگی قوانین، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی منافقت عیاں ہوگئی ہے۔ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے گزشتہ ایک سال میں 40,000 سے زائد معصوم جانیں ضائع ہوئیں اور 100,000 سے زائد افراد بے گھر ہو گئے۔ اس کے باوجود، عالمی برادری کی خاموشی بدستور بہرہ کن ہے"۔
طلباء نے مختلف برانڈز کے بائیکاٹ کا بھی مطالبہ کیا جو جاری تنازعہ میں اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ مانو طلباء یونین کے سابق صدر متین اشرف نے بھی احتجاجی مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے بائیکاٹ کے ذریعے معاشی مزاحمت کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم فلسطینی کاز کے ساتھ یکجہتی کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہے۔
چند طلباء نے کہا کہ بائیکاٹ لوگوں کو ایسی معیشت میں حصہ ڈالنے سے باز رکھے گا جو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی نسل کشی کی مہم کو ہوا دیتا ہے۔ طلباء نے مزید کہا کہ "ان کمپنیوں سے کی جانے والی ہر خریداری بالواسطہ طور پر فوجی اور سیاسی مشینری کی حمایت کرتی ہے جو فلسطین میں معصوم لوگوں کے خلاف مظالم کا ارتکاب کر رہی ہے"۔
چند طلباء نے یونیورسٹی انتظامیہ کے مارچ کے بارے میں خدشات پر تشویش کا اظہار کیا۔ مانو طلبہ یونین کے سابق صدر عمر فاروق نے کہا کہ "اگرچہ مارچ پرامن طور پر جاری تھا، لیکن انتظامیہ نے ہمیں میڈیا سے خطاب کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ہمارے لیے فلسطین کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرنا ضروری ہے اور انتظامیہ نے ماضی میں مظاہروں پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں‘‘۔
یہ بھی پڑھیں: