لکھنؤ: مجلس علمائے ہند کے زیر اہتمام ’حسین آباد کمیونٹی سینٹر‘ میں بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ’’ قوم کی تعمیر میں مدارس کا کردار ‘‘کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ایران اور ہندوستان کے علما ء اور افاضل نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔کانفرنس میں’ المصطفیٰ یونیورسٹی ایران‘ کے رئیس آیت اللہ ڈاکٹر علی عباسی نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور صدارت کا فریضہ بھی انجام دیا۔ان کے ساتھ مدرسۂ حجتیہ ایران کے رئیس حجۃ الاسلام آقای تلخابی ،ہندوستان میں المصطفیٰ یونیورسٹی کے نمائندے حجۃ الاسلام آقای شاکری اور حوزہ ریاست ایران کے رئیس آقای شاکانی نے بھی شرکت کی ۔میزبانی کے فرائض مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سیدکلب جواد نقوی نے انجام دئیے۔
کانفرنس کا آغاز قاری مولوی سید محمد تقی جعفری متعلم جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب نے تلاوت قرآن مجید سے کیا۔تلاوت کے بعد حوزہ علمیہ جامعۃ التبلیغ کے طالب علم مولوی محمد محسن نے نعت شریف پڑھی ۔اس کے بعد کانفرنس کے کنوینر حجۃ الاسلام مولانا سیدکلب جواد نقوی نے استقبالیہ تقریر کی ۔انہوں نے ’جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ‘ کے رئیس آیت اللہ ڈاکٹر علی عباسی اور ان کے ساتھ آئے ہوئے تمام مہمانوں کا ہندوستان میں استقبال کرتے ہوئے کہاکہ ایران اور ہندوستان کے دیرینہ تعلقات ہیں ،ان شاء اللہ آئندہ بھی اسی طرح دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار روابط استوار رہیں گے۔
آیت اللہ ڈاکٹر علی عباسی نے صدارتی تقریر میں ہندوستان اور ایران کے خوشگوار روابط کی اہمیت اور افادیت کی وضاحت کی اور کہاکہ ہم مدارس کے ذریعہ اس دوستی کو مزید فروغ دے سکتے ہیں ۔ہندستانی مدارس کے ہزاروں طلباایران میں زیر تعلیم ہیں جو ہماری مشترکہ تہذیب و ثقافت کو فروغ دےرہے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ مدرسوں نے ہمیشہ قوم کی تعمیر اور ترقی میں نمایاں کردار اداکیاہے ،اس لئے ہمیں مدرسوں کو مزید منظم اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے دوران تقریر ماہ رجب المرجب کی فضیلت اور مناسبتوں پر بھی روشنی ڈالی۔ جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے ہندوستان میں نمائندے حجۃ الاسلام آقای شاکری نے اپنی تقریر میں کہاکہ ایک وقت وہ بھی تھاکہ جب لکھنؤ کے حوزات علمیہ نے قم اور نجف اشرف کے حوزات کی رہنمائی اور کمک کی ،لیکن آج صورت حال مختلف ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں مدارس کا ایک شاندار ماضی رہاہے جس کے احیا کی اشد ضرورت ہے۔
اس سے پہلے مولانا صفدر حسین جونپوری نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ہم جامعۃ المصطفیٰ کے نظام سے امید کرتے ہیں کہ وہ مدارس کی بہتری میں اپنا کلیدی کردار پیش کرے گا ۔ان کے بعد مولانا محمد محسن تقوی امام جمعہ شیعہ جامع مسجد دہلی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے مدرسوں کو خود کفیل ہونا ہوگا۔جب تک مدرسے خودکفیل نہیں ہوں گے ،ہم مبتلابہ مسائل سے آزاد نہیں ہوسکتے ۔کانفرنس میں عادل فراز نے ہندوستان میں مدارس کی اجمالی تاریخ کو بیان کیا اورکہاکہ اودھ میں شیعوں کاپہلا مدرسہ قائم ہوااور فقہ جعفری کے مطابق فتویٰ دہی کا عمل بھی اودھ سے شروع ہوا،جس میں آیت العظمیٰ سید دلدار علی غفران مآب کی کوششوں کا فیض شامل حال تھا۔
پروگرام کے آخر میں مولانا سیدکلب جواد نقوی نے اختتامی تقریر کرتےہوئے کہاکہ قوم کی تعمیر اور تشکیل میں مدرسوں کا اہم کرداررہاہے ۔لکھنؤ نے ہمیشہ علم اور ادب نوازی کو فروغ دیا ۔ایسا صرف ہندوستان میں ہی نہیں ہوابلکہ لکھنؤ نے نجف اشرف اور ایران کے حوزات کی مدد بھی کی اور وہاں کے علما ہندوستان کے علما سے بعض مسائل میں رہنمائی بھی لیتے تھے ،جس کے شواہد تاریخ میں موجود ہیں ۔انہوں نے کہاکہ معاصر عہد میں مدرسوں کے نظام کو مزید بہترکرنے کی ضرورت ہے،اس سلسلے میں ان علما کو بھی آگے آنا چاہیے جو عرصۂ دراز سے ایران میں سکونت پذیر ہیں ۔یہ دور آزمائش کا ہے جس میں ایران سے آکر ہندوستان میں تعلیمی میدان میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ایران اور عراق میں پوری زندگی گذارنے کے بعد ملت کے مسائل اور مدارس کی ناگفتہ بہ صورت حال پر انہیں تنقید کرنے کاحق نہیں ہے جو اس ذمہ داری کو اٹھانے سے کترارہے ہیں ۔آخرکلام میں مولانا نے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکیا ۔پروگرام میں حوزہ علمیہ حضرت دلدار علی غفران مآبؒ کے طلبانے تواشیع پیش کی ۔نظامت کے فرائض مولانا اطہر کشمیری نے انجام دئیے ۔
پروگرام میں مولانا رضا حسین رضوی،مولانا نثار احمد زین پوری،مولانا اصطفیٰ رضا،مولانا محمد میاں عابدی قمی،مولانا منظر صادق زیدی،مولانا حیدرعباس رضوی،مولانا سراج حسین ،مولانا حامد حسین کانپوری،مولانا نسیم عباس،مولانا تسنیم مہدی زید پوری ،مولانا کلب عباس سلطان پوری،مولانا محمد موسیٰ سلطان المداراس،مولاناانوارالحسن اٹاوہ،مولانا قسیم عباس بجنور،مولانا پیغمبر عباس نوگانوی،مولانا قرۃ العین مجتبیٰ نوگانوی،مولانا کاظم حسین مظہری،مولانا وصی الحسن ،مولانا محمد ابراہیم جامعۃ التبلیغ ،مولانا فیروز علی بنارسی ،مولانا تہذیب الحسن تنظیم المکاتب،مولانا شمس الحسن ،مولانا حسنین باقری جامعہ ناظمیہ ،مولانا رئیس حیدر جلال پوری،مولانااشتیاق حسین ،مولانا حمید الحسن سیتاپوری،مولانا فیروز مہدی گڑھی مجھیڑہ ،مولانا زہیر قین قمی ،مولانا احمد عباس گھوسی،مولانا شبیر فیضی نجفی ،مولانا مظاہر حسین مئو،مولانا ڈاکٹر شجاعت علی ،مولانا رضا امام اترولوی،مولانا زوار حسین ،مولانا شباہت حسین ،مولانا قمرالحسن ہلوری،مولانا فیروز حسین ،مولانا محمد ثقلین باقری جوراسی ،مولانا غلام مہدی گلریز،مولاناشاہنواز حیدر ،مولانا محمد مہدی،مولانا قربان علی ،مولانا حسین مہدی ،مولانا محمد حیدر ،مولاناوصی امام عابدی،مولانا علی ہاشم عابدی،مولانا اسیف جائسی،مولانا ارشد حسین عرشی ،مولانا میثم زیدی مولانا منور عباس،ان کے علاوہ جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب،حوزہ علمیہ جامعۃ التبلیغ ،مدرسہ ناظمیہ ،سلطان المدارس اوربیرون لکھنؤ کے حوازات کے اساتذہ ،ائمہ جمعہ اور علما نے کثیر تعداد میں شرکت کی.