ETV Bharat / state

لکھنوی پان، جس میں سونا اور چاندی ڈال کر کھاتے تھے نواب - Lucknowi special paan

Lucknowi Special Paan: پان کے شوق کی روایت برسوں قدیم ہے جو آج بھی برقرار ہے۔ اتر پردیش میں بادشاہ غازی الدین حیدر نے پان کے کھانے کی روایت کو مزید عروج بخشا۔ کہا جاتا ہے کہ نواب اودھ مردانہ قوت میں اضافے کے لیے بھی پان کا شوق کرتے تھے جس میں سونے اور چاندی کے ٹکڑے شامل کیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر بیماریوں کے علاج کے لیے بھی پان کا استعمال ہوتا تھا۔

لکھنوی پان، جس میں سونا اور چاندی ڈال کر شوق کرتے تھے نواب
لکھنوی پان، جس میں سونا اور چاندی ڈال کر شوق کرتے تھے نواب
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 20, 2024, 4:57 PM IST

Updated : Mar 20, 2024, 5:07 PM IST

لکھنوی پان، جس میں سونا اور چاندی ڈال کر شوق کرتے تھے نواب

لکھنؤ: پان لکھنوی تہذیب و ثقافت اور نفاست کا اہم حصہ رہا ہے۔ بنارسی پان کو اگرچہ موجودہ دور میں زیادہ شہرت حاصل ہوئی لیکن لکھنوی پان نزاکت اور نفاست کی وجہ سے منفرد شناخت رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے لکھنؤ کے لوگ پان کھاتے نہیں ہیں بلکہ پان کا شوق کرتے ہیں۔ لکھنو میں پان کھانے کے لیے متعدد برتن کا بھی استعمال ہوتا ہے جس میں پان دان، خاصدان اور اغلدان شامل ہوتا ہے۔

لکھنوی پان سفید مائل سبز ہوتا ہے جب کہ بنارسی پان زرد ہوتا ہے۔ بنارسی پان کھانے کے لیے مشقت کرنی پڑتی ہے جب کہ لکھنؤی پان منہ میں ڈالتے ہی گھل جاتا ہے۔ بنارسی پان میں قدرے بڑے اور سخت ڈلی اور عام چونا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ لکھنؤ کے پان میں باریک سپاری اور کریم نما چونا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ پان بغیر کسی مشقت کے منہ میں گھل جائے۔

لکھنؤ کے مشہور ادیبوں میں سے ایک عبدالحلیم شرار اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ لکھنؤ کی ثقافت میں پہلی ترقی پان کی ہوئی۔ پان کے پتوں کو پہلے بہتر کیا گیا۔ مہوبا کے پان قدرتی طور پر بہت اچھے تھے لیکن اس وقت لکھنؤ میں بھی پان کی کاشت شروع ہو گئی تھی۔ پان بیچنے والے پان کے پتوں کو زمین میں گاڑ دیتے تھے تاکہ اس کا کچا پن دور ہو جائے۔ اس سے پتے سفیدی مائل ہو جاتے تھے اور کسیلا پن بھی ختم ہو جاتا تھا۔ اسے بیگم پان کہا جاتا ہے وہ اس لیے کہ یہ بہت نرم اور ذائقے میں اچھا تھا۔

نوابی خاندان سے تعلق رکھنے والے نواب مسعود عبداللہ نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ نوابین اودھ کے دور میں پان لگانے کے لیے کچھ مخصوص افراد رکھے جاتے تھے جو پوری نزاکت اور نفاست کا خیال رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد کے لیے میری ماں پان لگاتی تھیں اور وہ اس قدر نفاست کے ساتھ پان لگاتی تھیں کہ پان کی پتے میں جو نسیں موجود ہوتی ہے اسے بھی نکال دیتی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس نفاست کے ساتھ لکھنؤ کے لوگ پان کا شوق کرتے تھے۔

نوابی دور میں شاہی دربار میں پنوالی بہت خاص تھے۔ نخاس میں مشہور پان کی دکان کے مالک محمد اظہر کا کہنا ہے کہ ہم بچپن میں سنتے تھے کہ نوابی دور میں شاہی محلات میں پان والیاں ہوتی تھیں اور انہیں خصوصی تنخواہ پر رکھا جاتا تھا۔ ان کا کام پان کھانا کھلانا تھا۔ پان کے اقسام میں تبدیلی آئی ہیں۔

نخاس کے مشہور پان بیچنے والے محمد اظہر جو اظہر بھائی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ لکھنوی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے انہوں نے نوابی شخصیات کے نام پر پان ایجاد کیا ہے۔ اظہر بتاتے ہیں کہ ان کی دکان گذشتہ 80 برس سے چل رہی ہے اور وہ خود اسے 40 برس سے چلا رہے ہیں۔ جو سفر سادہ پان سے شروع ہوا تھا وہ آج پان کی کئی اقسام میں تبدیل ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

اظہر بتاتے ہیں کہ بیگم پسند پان، واجد علی شاہ کی گیلوری، شاہی میٹھا پان، پلنگ توڑ پان سے لے کر کمر درد پان، منہ کے چھالے اور کھٹے میٹھے پان، انگارہ پان، نزلہ زکام پان تک سب کچھ ان کے یہاں دستیاب ہے۔ ان تمام پانوں کے مصالحوں میں بیری کری، آملہ، انناس، گلکند اور پھولوں کی چٹنی کا استعمال اسے مزید لذیذ بناتا ہے۔ یہاں پان کے پتوں کی اقسام پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

لکھنوی پان، جس میں سونا اور چاندی ڈال کر شوق کرتے تھے نواب

لکھنؤ: پان لکھنوی تہذیب و ثقافت اور نفاست کا اہم حصہ رہا ہے۔ بنارسی پان کو اگرچہ موجودہ دور میں زیادہ شہرت حاصل ہوئی لیکن لکھنوی پان نزاکت اور نفاست کی وجہ سے منفرد شناخت رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے لکھنؤ کے لوگ پان کھاتے نہیں ہیں بلکہ پان کا شوق کرتے ہیں۔ لکھنو میں پان کھانے کے لیے متعدد برتن کا بھی استعمال ہوتا ہے جس میں پان دان، خاصدان اور اغلدان شامل ہوتا ہے۔

لکھنوی پان سفید مائل سبز ہوتا ہے جب کہ بنارسی پان زرد ہوتا ہے۔ بنارسی پان کھانے کے لیے مشقت کرنی پڑتی ہے جب کہ لکھنؤی پان منہ میں ڈالتے ہی گھل جاتا ہے۔ بنارسی پان میں قدرے بڑے اور سخت ڈلی اور عام چونا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ لکھنؤ کے پان میں باریک سپاری اور کریم نما چونا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ پان بغیر کسی مشقت کے منہ میں گھل جائے۔

لکھنؤ کے مشہور ادیبوں میں سے ایک عبدالحلیم شرار اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ لکھنؤ کی ثقافت میں پہلی ترقی پان کی ہوئی۔ پان کے پتوں کو پہلے بہتر کیا گیا۔ مہوبا کے پان قدرتی طور پر بہت اچھے تھے لیکن اس وقت لکھنؤ میں بھی پان کی کاشت شروع ہو گئی تھی۔ پان بیچنے والے پان کے پتوں کو زمین میں گاڑ دیتے تھے تاکہ اس کا کچا پن دور ہو جائے۔ اس سے پتے سفیدی مائل ہو جاتے تھے اور کسیلا پن بھی ختم ہو جاتا تھا۔ اسے بیگم پان کہا جاتا ہے وہ اس لیے کہ یہ بہت نرم اور ذائقے میں اچھا تھا۔

نوابی خاندان سے تعلق رکھنے والے نواب مسعود عبداللہ نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ نوابین اودھ کے دور میں پان لگانے کے لیے کچھ مخصوص افراد رکھے جاتے تھے جو پوری نزاکت اور نفاست کا خیال رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد کے لیے میری ماں پان لگاتی تھیں اور وہ اس قدر نفاست کے ساتھ پان لگاتی تھیں کہ پان کی پتے میں جو نسیں موجود ہوتی ہے اسے بھی نکال دیتی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس نفاست کے ساتھ لکھنؤ کے لوگ پان کا شوق کرتے تھے۔

نوابی دور میں شاہی دربار میں پنوالی بہت خاص تھے۔ نخاس میں مشہور پان کی دکان کے مالک محمد اظہر کا کہنا ہے کہ ہم بچپن میں سنتے تھے کہ نوابی دور میں شاہی محلات میں پان والیاں ہوتی تھیں اور انہیں خصوصی تنخواہ پر رکھا جاتا تھا۔ ان کا کام پان کھانا کھلانا تھا۔ پان کے اقسام میں تبدیلی آئی ہیں۔

نخاس کے مشہور پان بیچنے والے محمد اظہر جو اظہر بھائی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ لکھنوی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے انہوں نے نوابی شخصیات کے نام پر پان ایجاد کیا ہے۔ اظہر بتاتے ہیں کہ ان کی دکان گذشتہ 80 برس سے چل رہی ہے اور وہ خود اسے 40 برس سے چلا رہے ہیں۔ جو سفر سادہ پان سے شروع ہوا تھا وہ آج پان کی کئی اقسام میں تبدیل ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

اظہر بتاتے ہیں کہ بیگم پسند پان، واجد علی شاہ کی گیلوری، شاہی میٹھا پان، پلنگ توڑ پان سے لے کر کمر درد پان، منہ کے چھالے اور کھٹے میٹھے پان، انگارہ پان، نزلہ زکام پان تک سب کچھ ان کے یہاں دستیاب ہے۔ ان تمام پانوں کے مصالحوں میں بیری کری، آملہ، انناس، گلکند اور پھولوں کی چٹنی کا استعمال اسے مزید لذیذ بناتا ہے۔ یہاں پان کے پتوں کی اقسام پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

Last Updated : Mar 20, 2024, 5:07 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.