ETV Bharat / state

جسٹس سید محمود اور سر سید ہاوس کی تاریخی اہمیت

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 28, 2024, 8:00 PM IST

Justice Syed Mahmood جسٹس سید محمود نے 1876 میں اپنی اہلیہ مشرف جہاں بیگم کو ایک عمارت مہر میں خرید کر دی تھی۔ اسی عمارت میں اپنے والد بانی درسگاہ سر سید احمد خان کے رہنے کا بھی انتظام کیا تھا، آج یہ عمارت سر سید ہاوس کے نام سے جانی جاتی ہے۔

جسٹس سید محمود اور سر سید ہاوس کی تاریخی اہمیت
جسٹس سید محمود اور سر سید ہاوس کی تاریخی اہمیت
جسٹس سید محمود اور سر سید ہاوس کی تاریخی اہمیت

علی گڑھ:عالمی شہرت یافتہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں موجود تاریخی اور اہمیت کی حامل عمارات سر سید ہاوس 1876 سے قبل ایک ملیٹری میس تھا ۔اس کو 1876 میں بانی درسگاہ سرسید احمد خان کے صاحبزادے جسٹس سید محمود نے خرید کر اپنی اہلیہ مشرف جہاں بیگم کو مہر میں دیا تھا اور سر سید کو بھی یہی رہنے کی اجازت دی تھی جو تقریبا 13.7 ایکڑ زمین ہے۔

1929 سے 1934 کے دوران سر سید کے پوتے یعنی جسٹس سید محمود کے صاحبزادے روس مسعود نے اس کو وائس چانسلر رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا تھا، 1972 میں اے ایم یو کے سابق وائس چانسلر پروفیسر عبدالعلیم نے اس تاریخی عمارت کی تزئین کاری کا کام انجام دیا۔

جسٹس سید محمود :
سر سید کے بڑے صاحبزادے تھے جن کی پیدائش 24 مئی 1850 میں دہلی میں ہوئی اور آپ کی وفات 8 مئی 1903 میں، وہ برطانوی راج میں ہائی کورٹ کے جج کے طور پر خدمات انجام دینے والے پہلے مسلمان تھے۔ سید محمود نے اپنے والد سر سید احمد خان کی محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کے قیام میں مدد کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا، جو 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہوا۔

ماہر سر سید اور اردو اکیدمی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے اس عمارت کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا میرا یہ ماننا ہے کہ سر سید ہاوس میں موجود سر سید اکیدمی کو سر سید کی تصنیف اور تحقیق کا سب سے بڑا مرکز ہونا چاہیے اور سر سید سے متعلق تمام دستاویزات اور کتابوں کو یہاں رکھنا چاہیے تاکہ وہاں طلباء جاکر سر سید کے تعلیمی مشن کو سمجھے اور سر سید اور ان کی خدمات پر تحقیق کر سکیں۔

انہوں نے مزید کہا یونیورسٹی کے اندر طلباء کے لئے بانی درسگاہ کے حوالے سے ایک سر سید فاؤنڈیشن کورس بھی ہونا چاہئے۔سر سید اکیدمی کے ملازم ڈاکٹر محمد مختار عالم نے بتایا جسٹس سید محمود کی علمی شخصیت تھی وہ علم کے بڑے محقق اور اسکالر تھے۔ وہ فارسی، عربی اور انگریزی زبان کے ماہر اسکالر تھے۔ انگلینڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب واپس آئے تو حکومت نے ان کو ہائی کورٹ کا جیف جسٹس مقرر کیا۔

سر سید ہاوس :
اس تاریخی اور اہمیت کی حامل عمارت میں سائنٹیفک سوسائٹی، سر سید اکیدمی، مشرف جہاں بیگم کی قبر اور ان کے نام سے منسوب روس گارڈن بھی موجود ہے جو طلباء و طالبات کے ساتھ یونیورسٹی میں آنے والے مہمانان کی پہلی پسند بن گئ ہے۔واضح رہے بانی درسگاہ سرسید احمد خان کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں ہوئی جب کہ ان کا انتقال 27 مارچ 1898 کو علی گڑھ میں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:سالار جنگ میوزیم میں چار روزہ کیلی گرافی نمائش کا انعقاد

تدفین اے ایم یو کی تاریخی جامع مسجد میں ہوئی۔ سر سید احمد خان 1876 تک بنارس میں جج کے عہدے پر فائز تھے اور جب انہوں نے ریٹائرمنٹ لیا تو وہ اگست کے ماہ میں علی گڑھ تشریف لائے۔اے ایم یو کیمپس میں 13.7 ایکڑ زمین پر موجود سرسید ہاؤس میں سرسید احمد خان تقریباً 22 برس رہائش پذیر رہے تھے۔

وائس چانسلر کی رہائش گاہ
جب سر راس مسعود کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا تو انہوں نے موجودہ سرسید ہاؤس میں ہی رہنا پسند کیا، 1929 سے 1934 تک وہ سر سید ہاؤس میں ہی رہے اور اس کے بعد جب ضیاء الدین احمد خان وائس چانسلر بنے تو وہ بھی اسی سرسید ہاؤس میں ہی رہے۔ اس طرح سے موجودہ سر سید ہاؤس 11 سال تک وائس چانسلر رہائش گاہ رہا۔ جب سر شاہ سلیمان وائس چانسلر بنے تو انہوں نے سرسید ہاؤس میں رہنا پسند نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے دفتر کے برابر میں موجود دو کمروں میں ہی رہنا پسند کیا۔

جسٹس سید محمود اور سر سید ہاوس کی تاریخی اہمیت

علی گڑھ:عالمی شہرت یافتہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں موجود تاریخی اور اہمیت کی حامل عمارات سر سید ہاوس 1876 سے قبل ایک ملیٹری میس تھا ۔اس کو 1876 میں بانی درسگاہ سرسید احمد خان کے صاحبزادے جسٹس سید محمود نے خرید کر اپنی اہلیہ مشرف جہاں بیگم کو مہر میں دیا تھا اور سر سید کو بھی یہی رہنے کی اجازت دی تھی جو تقریبا 13.7 ایکڑ زمین ہے۔

1929 سے 1934 کے دوران سر سید کے پوتے یعنی جسٹس سید محمود کے صاحبزادے روس مسعود نے اس کو وائس چانسلر رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا تھا، 1972 میں اے ایم یو کے سابق وائس چانسلر پروفیسر عبدالعلیم نے اس تاریخی عمارت کی تزئین کاری کا کام انجام دیا۔

جسٹس سید محمود :
سر سید کے بڑے صاحبزادے تھے جن کی پیدائش 24 مئی 1850 میں دہلی میں ہوئی اور آپ کی وفات 8 مئی 1903 میں، وہ برطانوی راج میں ہائی کورٹ کے جج کے طور پر خدمات انجام دینے والے پہلے مسلمان تھے۔ سید محمود نے اپنے والد سر سید احمد خان کی محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کے قیام میں مدد کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا، جو 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہوا۔

ماہر سر سید اور اردو اکیدمی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے اس عمارت کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا میرا یہ ماننا ہے کہ سر سید ہاوس میں موجود سر سید اکیدمی کو سر سید کی تصنیف اور تحقیق کا سب سے بڑا مرکز ہونا چاہیے اور سر سید سے متعلق تمام دستاویزات اور کتابوں کو یہاں رکھنا چاہیے تاکہ وہاں طلباء جاکر سر سید کے تعلیمی مشن کو سمجھے اور سر سید اور ان کی خدمات پر تحقیق کر سکیں۔

انہوں نے مزید کہا یونیورسٹی کے اندر طلباء کے لئے بانی درسگاہ کے حوالے سے ایک سر سید فاؤنڈیشن کورس بھی ہونا چاہئے۔سر سید اکیدمی کے ملازم ڈاکٹر محمد مختار عالم نے بتایا جسٹس سید محمود کی علمی شخصیت تھی وہ علم کے بڑے محقق اور اسکالر تھے۔ وہ فارسی، عربی اور انگریزی زبان کے ماہر اسکالر تھے۔ انگلینڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب واپس آئے تو حکومت نے ان کو ہائی کورٹ کا جیف جسٹس مقرر کیا۔

سر سید ہاوس :
اس تاریخی اور اہمیت کی حامل عمارت میں سائنٹیفک سوسائٹی، سر سید اکیدمی، مشرف جہاں بیگم کی قبر اور ان کے نام سے منسوب روس گارڈن بھی موجود ہے جو طلباء و طالبات کے ساتھ یونیورسٹی میں آنے والے مہمانان کی پہلی پسند بن گئ ہے۔واضح رہے بانی درسگاہ سرسید احمد خان کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں ہوئی جب کہ ان کا انتقال 27 مارچ 1898 کو علی گڑھ میں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:سالار جنگ میوزیم میں چار روزہ کیلی گرافی نمائش کا انعقاد

تدفین اے ایم یو کی تاریخی جامع مسجد میں ہوئی۔ سر سید احمد خان 1876 تک بنارس میں جج کے عہدے پر فائز تھے اور جب انہوں نے ریٹائرمنٹ لیا تو وہ اگست کے ماہ میں علی گڑھ تشریف لائے۔اے ایم یو کیمپس میں 13.7 ایکڑ زمین پر موجود سرسید ہاؤس میں سرسید احمد خان تقریباً 22 برس رہائش پذیر رہے تھے۔

وائس چانسلر کی رہائش گاہ
جب سر راس مسعود کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا تو انہوں نے موجودہ سرسید ہاؤس میں ہی رہنا پسند کیا، 1929 سے 1934 تک وہ سر سید ہاؤس میں ہی رہے اور اس کے بعد جب ضیاء الدین احمد خان وائس چانسلر بنے تو وہ بھی اسی سرسید ہاؤس میں ہی رہے۔ اس طرح سے موجودہ سر سید ہاؤس 11 سال تک وائس چانسلر رہائش گاہ رہا۔ جب سر شاہ سلیمان وائس چانسلر بنے تو انہوں نے سرسید ہاؤس میں رہنا پسند نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے دفتر کے برابر میں موجود دو کمروں میں ہی رہنا پسند کیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.