نئی دہلی: واضح رہے کہ شام کی دارالحکومت دمشق میں یکم اپریل کو ایرانی قونصل خانے پر ہونے والے حملے میں پاسداران انقلاب کے سات اہلکار اور چھ شامی باشندے ہلاک ہوئے تھے۔ ایران نے اسرائیل کے اس حملے پر شدید ردِ عمل دینے کی دھمکی تھی۔جس پر ایران نے 13اور14 اپریل کی درمیانی شب میں اسرائیل پرتقریبا 300 ڈرون اور راکٹ سے حملے کیے ۔ جس کے بعد اسرائیلی نے دعوٰی کیا کہ اس نے آئرن ڈوم کی توسط سے ایران کے 80فیصد ڈرونز کو ناکام بنادیاحالانکہ اس حملے سے کچھ نقصان ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے.
ایران کے حملے کے بعد امریکہ کے ذریعہ یہ خبر نشر کی گئی کہ اسرائیل نے ایران کے جوہری افزدگی والے علاقے اصفہان پر حملہ کیا لیکن اسرائیل کی جانب سے مسلم کو ئصدیق نہیں کی گئی ۔اسرائیل پر ایران کے حملے سے کس کو کتنا فائدہ ہوا ہے۔
اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کے دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر محمد سہراب نے کہا کہ اس حملے کو فائدہ کی نگاہ سے نہیں دیکھا جانا چاہئے بلکہ اسرائیل نے شام کے شہر دمشق میں ایرانی قونصل خانہ پر جو حملہ کیا تھا جس میں پاسداران انقلاب کے سینڑ رہنما سمیت سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس پر ایران کا براہ راست جواب تھا۔اس حملے کو فائدہ اور نقصان کے نظریہ سے نہی دیکھا جاسکتا ہے۔
پروفیسر محمد سہراب نے کہا ک جو لو گ یہ الزام لگاتے ہیں کہ ایران کے حملے سے غزہ کی جانب سے دھیان ہٹانے کے لئے کیا گیا ہے تو یہ بھی غلط ہے۔
ایران نے جو حملہ کیا ہے وہ فلسطین کے جواز کو لے کر نہیں کیا ہےیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایران لا تعلق ہے۔ایران کی ہمدردی فلسطینیوں کے حق میں واضح طور پر ہے۔لئکن ایران نے جو حملہ اسرائیل پر کیا براہ راست جواب تھا۔اس کے علاوہ ایران کے پاس کوئی اپشن نہیں تھا۔حالانکہ ایران نے اس پر کوئی جارحانہ رخ نہیں اپنایا بلکہ اسرائیل کے جارحانہ حملے کا جواب دیا ہے۔
جامعہ ملیہ السلامیہ کے پروفیسر نے کہا کہ فسلطین کے لوگ اپنے ملک کی دفاع کے لئے اسرائیل سے لڑ رہے ہیں جو اسرائیل نے برسوں سے فلسطین کے متعدد مقامات پر قبضہ کررکھا ہے۔ جہاں تک فلسطین اور غزہ خطہ کا معاملہ ہے اس کو پوری دنیا کی عوام جو انصاف کی بات کرتی ہے اور وہ ممالک جو جمہوریت اور انصاف کی بات کرتے ہیں ان کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ تعاون کریں اور بات چیت کے ذریعہ اس مسئلے کو حل کریں۔ لیکن ان ممالک نے فلسطین اور فلسطین کی معصوم عوام کو اسرائیل کے جارحانہ انداز پر کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔اور کوئی اسرائیل کا آرمی مقابلہ کرنا تو دور تو اس کا سیاسی مقابلہ نہیں کر رہا ہے۔
لیکن اس دوران ایران کا حملہ ہوتا ہے تو سایکلوجیکل طور یہ اثر انداز ہوتا ہے اور ہونا چاہئے اس حملہ سے فلسطینی عوام کی حوصلہ افزائی اور تقویت ملتی ہے۔پروفیسر محمد سہراب نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ بڑا پیچیدہ ہوتا جارہا ہے مغربی دنیا کی یہ خواہش کہ فلسطینی گھٹنا ٹیک دیےیا وہاں سے چلے جائے یا اسرائیلی توسط سے رہنے سے اتفاق کرلیں۔
یہ بھی پڑھیں:مظفرنگر میں عید کی نماز کی ادائیگی، فلسطین کے لیے خصوصی دعا - Eid al Fitr 2024 in Muzaffarnagar
انہوں نے کہا کہ فلسطین وہ قوم ہے اپنی جان دے دیگی اور دے رہی ہے ان شرائط کو تسلیم نہیں کرے گی۔ لیکن اب فلسطین کو مدد ملے گی یا نہیں عرب قوم کی طرف سے تو یہ ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ موجودہ وقت میں جس طرح سے عرب حکومتوں نے پیٹھ دکھایا ہے امید نہیں کی جا سکتی ہے۔