لکھنؤ: موجودہ وقت میں پورا ملک پارلیمانی انتخابات کی سرگرمیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ سیاسی جماعتیں اشتہاری مہم میں پوری طاقت صرف کر رہی ہیں۔ وہیں ایک دوسرے پر سخت الفاظ میں تنقیدیں بھی کی جا رہی ہیں۔ تاہم تہذیب و ثقافت کے شہر لکھنؤ میں آزادی کے بعد اشتہاری مہم کی ایک منفرد تاریخ رہی ہے۔ جسے آج بھی نوابین اودھ کے خاندان کے لوگ یاد کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آزادی کے بعد لکھنؤ میں میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کا اعلان ہوا۔ اس وقت لکھنؤ کے معروف حکیم شمس الدین انتخابی میدان میں آئے تو ان کے مقابلہ میں ایک خوبصورت اور مشہور طوائف دلربا بھی انتخابی میدان میں آئی تھیں۔ جن کا قصہ لکھنؤ کی گلیوں میں آج بھی گونجتا ہے۔
ان ہی حالات اور واقعات کو ای ٹی وی بھارت نے جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے نوابی خاندان سے تعلق رکھنے والے نواب مسعود عبداللہ بتاتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ جب یہاں میونسپل کارپوریشن کا انتخاب منعقد ہوا تو حکیم شمس الدین کے مقابل لکھنؤ کی مشہور و معروف طوائف دلربا میدان انتخاب میں آگئیں۔ دلربا کی اشتہاری مہم میں خوب بھیڑ جمع ہوتی تھی اور عوام کا ہجوم ہوتا تھا۔ اس دوران حکیم شمس الدین نے ایک نعرہ دیا اور کہا کہ دل دو دلربا کو اور ووٹ دو حکیم شمس الدین کو۔ یہ نعرہ خوب مشہور ہوا۔ جب انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو حکیم شمس الدین کثیر ووٹ سے جیت گئے۔
اس کے بعد حکیم شمس الدین کو مبارکباد پیش کرنے طوائف دلربا ان کے گھر گئیں اور کہا کہ اس شہر میں دل والے کم اور دل کے مریض زیادہ ہیں۔ تو یہ واقعہ لکھنؤ شہر کا ہے جب یہاں کا انتخاب بہت دلچسپ ہوتا تھا۔ لوگ چائے کی دکان پہ انتخابات کے نتائج کا انتظار کرتے تھے اور کامیاب امیدوار کا ڈھول تاشہ اور نگارے سے استقبال کرتے تھے۔ لیکن موجودہ دور میں تمام چیزیں مختلف ہو گئی ہیں۔ اب سیاسی رہنماؤں کی زبان بھی بد سے بدترین ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف جہاں سیاسی جماعتیں دوسرے رہنماؤں پر سخت الفاظ میں چھینٹا کشی کرتی ہیں تو کئی طبقات کو بھی دلخراش الفاظ کے ذریعہ ان کے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے۔ جو کہ بھارتی روایت اور جمہوری اقدار کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔