ETV Bharat / state

شاہی عید گاہ کی دیکھ بھال زمانے تک غیر مسلم کے ہاتھ میں رہی - Historical SHAHI EIDGAH SHARQI

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Apr 9, 2024, 12:36 PM IST

SHai Eidgah Sharqi In Jaunpur منعم خانخاناں جونپور کے ناظم مقرر ہوئے تو انہوں نے بادشاہ کی ایما سے 1568 میں دوست محمد کی نگرانی میں عیدگاہ کی طرف خاص توجہ دی اس کی دیواریں بلند از سر نو تعمیر کرائی گئی اور صدر دروازہ نہایت بلند و عالی شان اور دربان کے رہنے کے لیے اس پر ایک کمرہ اور صحن مسجد میں ایک حوض اور کنواں بھی بنایا

شاہی عید گاہ کی دیکھ بھال زمانے تک غیر مسلم کے ہاتھ میں رہی
شاہی عید گاہ کی دیکھ بھال زمانے تک غیر مسلم کے ہاتھ میں رہی
شاہی عید گاہ کی دیکھ بھال زمانے تک غیر مسلم کے ہاتھ میں رہی

جونپور: شیراز ہند جونپور میں شرقی و مغل دور کی بے شمار عمارتیں سینکڑوں سال گزرنے کے بعد آج بھی اپنی پوری آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ شہر کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہیں۔ انہیں میں سے ایک محلہ عمر پور ہریندر پور میں اکبری پل کے تھوڑے فاصلے پر واقع مسجد عیدگاہ شاہی ہے جسے سب سے پہلے شرقی بادشاہ حسین شاہ شرقی نے تعمیر کرایا تھا۔

اس عیدگاہ میں عید الفطر و عید الاضحٰی کے موقع پر کشتیوں کا پل دریائے گومتی پر بناکر بادشاہ مع افواج و اہلیان شہر نماز کے لیے جاتے تھے اس عیدگاہ میں بیک وقت 50 سے 60 ہزار لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس عیدگاہ کو پوروانچل کی سب سے بڑی عیدگاہ ہونے کا خطاب بھی حاصل ہے۔

سلطنت شرقیہ کے زوال کے بعد جونپور کی مرکزی حیثیت اور رونق جاتی رہی تو پھر کسی نے بھی عیدگاہ کی مرمت اور دیکھ بھال کی طرف توجہ نہیں کی جس کی وجہ سے دیواریں گر گئیں مگر اکبر اعظم کے دور حکومت میں جونپور کو ایک مرتبہ پھر امتیازی و مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی جب منعم خانخاناں جونپور کے ناظم مقرر ہوئے تو انہوں نے بادشاہ کی ایما سے 1568 میں دوست محمد کی نگرانی میں عیدگاہ کی طرف خاص توجہ دی۔

کچھ افغان جو عیدگاہ کے قریب میں آباد تھے وہ صحن میں کاشتکاری کرنے لگے 1702 عیسوی میں مسٹر ابراہم ولند صاحب کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے موقع کا معائنہ کرکے عیدگاہ میں ہو رہی کاشتکاری کو فوراً بند کر دیا۔ راجہ شیو لال دوبے کو سفیدی فرش اور شامیانہ کا حکم دیا ۔ابراہم کے زمانے تک راجہ صاحب پابندی کے ساتھ اس خدمت کو انجام دیتے رہے۔پھر مرزا احمد بخش ناظر جونپور کو عیدگاہ کی مرمت کا حکم دیا گیا

اس کی مرمت جاری تھی کہ مسٹر ابراہیم ولند صاحب کا تبادلہ ہوگیا اور یہ کار خیر رک گیا اس سے متصل چاروں طرف کافی افتادہ زمین تھی جس کا کافی حصہ کھیتوں میں شامل ہوگیا ہے یا لوگوں نے اپنے مصرف میں لے لیا ہے اتری و دکھنی حصہ میں بزرگان دین و شہر کے کچھ خاندانوں کی قبریں ہیں اسی طرح پچھم طرف افتادہ زمین پر سینکڑوں خام اور شکستہ قبریں موجود ہیں۔

آزادی کے بعد شاہی عیدگاہ کو وقف بورڈ میں درج کروایا گیا جس کی باقاعدہ اب ایک انتظامیہ کمیٹی ہے جس کے صدر حاجی ممتاز احمد ایڈووکیٹ اور سکریٹری شعیب خان اچھو ہیں یہ کمیٹی عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر نگر پالیکا پریشد کی مدد سے عیدگاہ کی صفائی و رنگ و روغن کا انتظام کرتی ہے۔ اس کے احاطے میں درجنوں آم اور دوسرے پھلوں کے درخت موجود ہیں جو سایہ پہونچانے کی غرض سے لگائے گئے ہیں۔ اس عیدگاہ میں تقریباً 40 دکانیں ہیں جس کے کرایا سے عیدگاہ کے اخراجات کو مکمل کیا جاتا ہے اور اس میں کل تین قدیم دروازے تھے مگر ایک چوتھا دروازہ بارہ فٹ کشادہ پندرہ سیڑھیوں کا محلہ تاراپور تکیہ کی جانب ضرورت کے پیش نظر موجودہ کمیٹی نے تعمیر کروایا ہے۔

مسجد عیدگاہ کی دیواریں بڑی موٹی اور دس فٹ اونچی ہے عیدگاہ تقریباً 12 سے 15 ایکڑ کے رقبے میں ہے اور سطح زمین سے بیس سیڑھیاں عبور کرنے کے بعد عیدگاہ میں داخل ہوا جا سکتا ہے اور عیدگاہ زمینی سطح سے 26 فٹ اونچائی پر ہے۔ اس کا صدر دروازہ تقریباً 50 فٹ اونچا ہے عیدین کی نماز مولانا کرامت علی کے خانوادے کے لوگ پڑھاتے ہیں عید کے دن عیدگاہ کے باہر ٹینٹ لگایا جاتا ہے جہاں ضلع انتظامیہ سمیت سیاسی و سماجی شخصیات مسلمانوں کو عیدین کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:Ramadan Kits Distributed in Ahmedabad احمدآباد میں صوفی پیر احمد شاہ قادری نے رمضان کٹس تقسیم کیے

چند سال قبل عیدگاہ سے لیکر کوتوالی چوراہا تک مائک لگایا جاتا تھا جہاں جونپور کے مسلمانوں کو وعظ و نصیحت اور ضرورت ہدایات دی جاتی تھی اور تاخیر ہونے کی وجہ سے نمازی راستے میں ہی نماز ادا کرلیتے تھے۔ اسی کے ذریعے عیدگاہ سے چاند اور نماز کا اعلان کیا جاتا تھا مگر ضلع انتظامیہ نے مائک پر روک لگا دی ہے جس سے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ عیدگاہ کے احاطہ میں مائک لگانے کی پوری آزادی ہے۔

شاہی عید گاہ کی دیکھ بھال زمانے تک غیر مسلم کے ہاتھ میں رہی

جونپور: شیراز ہند جونپور میں شرقی و مغل دور کی بے شمار عمارتیں سینکڑوں سال گزرنے کے بعد آج بھی اپنی پوری آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ شہر کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہیں۔ انہیں میں سے ایک محلہ عمر پور ہریندر پور میں اکبری پل کے تھوڑے فاصلے پر واقع مسجد عیدگاہ شاہی ہے جسے سب سے پہلے شرقی بادشاہ حسین شاہ شرقی نے تعمیر کرایا تھا۔

اس عیدگاہ میں عید الفطر و عید الاضحٰی کے موقع پر کشتیوں کا پل دریائے گومتی پر بناکر بادشاہ مع افواج و اہلیان شہر نماز کے لیے جاتے تھے اس عیدگاہ میں بیک وقت 50 سے 60 ہزار لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس عیدگاہ کو پوروانچل کی سب سے بڑی عیدگاہ ہونے کا خطاب بھی حاصل ہے۔

سلطنت شرقیہ کے زوال کے بعد جونپور کی مرکزی حیثیت اور رونق جاتی رہی تو پھر کسی نے بھی عیدگاہ کی مرمت اور دیکھ بھال کی طرف توجہ نہیں کی جس کی وجہ سے دیواریں گر گئیں مگر اکبر اعظم کے دور حکومت میں جونپور کو ایک مرتبہ پھر امتیازی و مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی جب منعم خانخاناں جونپور کے ناظم مقرر ہوئے تو انہوں نے بادشاہ کی ایما سے 1568 میں دوست محمد کی نگرانی میں عیدگاہ کی طرف خاص توجہ دی۔

کچھ افغان جو عیدگاہ کے قریب میں آباد تھے وہ صحن میں کاشتکاری کرنے لگے 1702 عیسوی میں مسٹر ابراہم ولند صاحب کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے موقع کا معائنہ کرکے عیدگاہ میں ہو رہی کاشتکاری کو فوراً بند کر دیا۔ راجہ شیو لال دوبے کو سفیدی فرش اور شامیانہ کا حکم دیا ۔ابراہم کے زمانے تک راجہ صاحب پابندی کے ساتھ اس خدمت کو انجام دیتے رہے۔پھر مرزا احمد بخش ناظر جونپور کو عیدگاہ کی مرمت کا حکم دیا گیا

اس کی مرمت جاری تھی کہ مسٹر ابراہیم ولند صاحب کا تبادلہ ہوگیا اور یہ کار خیر رک گیا اس سے متصل چاروں طرف کافی افتادہ زمین تھی جس کا کافی حصہ کھیتوں میں شامل ہوگیا ہے یا لوگوں نے اپنے مصرف میں لے لیا ہے اتری و دکھنی حصہ میں بزرگان دین و شہر کے کچھ خاندانوں کی قبریں ہیں اسی طرح پچھم طرف افتادہ زمین پر سینکڑوں خام اور شکستہ قبریں موجود ہیں۔

آزادی کے بعد شاہی عیدگاہ کو وقف بورڈ میں درج کروایا گیا جس کی باقاعدہ اب ایک انتظامیہ کمیٹی ہے جس کے صدر حاجی ممتاز احمد ایڈووکیٹ اور سکریٹری شعیب خان اچھو ہیں یہ کمیٹی عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر نگر پالیکا پریشد کی مدد سے عیدگاہ کی صفائی و رنگ و روغن کا انتظام کرتی ہے۔ اس کے احاطے میں درجنوں آم اور دوسرے پھلوں کے درخت موجود ہیں جو سایہ پہونچانے کی غرض سے لگائے گئے ہیں۔ اس عیدگاہ میں تقریباً 40 دکانیں ہیں جس کے کرایا سے عیدگاہ کے اخراجات کو مکمل کیا جاتا ہے اور اس میں کل تین قدیم دروازے تھے مگر ایک چوتھا دروازہ بارہ فٹ کشادہ پندرہ سیڑھیوں کا محلہ تاراپور تکیہ کی جانب ضرورت کے پیش نظر موجودہ کمیٹی نے تعمیر کروایا ہے۔

مسجد عیدگاہ کی دیواریں بڑی موٹی اور دس فٹ اونچی ہے عیدگاہ تقریباً 12 سے 15 ایکڑ کے رقبے میں ہے اور سطح زمین سے بیس سیڑھیاں عبور کرنے کے بعد عیدگاہ میں داخل ہوا جا سکتا ہے اور عیدگاہ زمینی سطح سے 26 فٹ اونچائی پر ہے۔ اس کا صدر دروازہ تقریباً 50 فٹ اونچا ہے عیدین کی نماز مولانا کرامت علی کے خانوادے کے لوگ پڑھاتے ہیں عید کے دن عیدگاہ کے باہر ٹینٹ لگایا جاتا ہے جہاں ضلع انتظامیہ سمیت سیاسی و سماجی شخصیات مسلمانوں کو عیدین کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:Ramadan Kits Distributed in Ahmedabad احمدآباد میں صوفی پیر احمد شاہ قادری نے رمضان کٹس تقسیم کیے

چند سال قبل عیدگاہ سے لیکر کوتوالی چوراہا تک مائک لگایا جاتا تھا جہاں جونپور کے مسلمانوں کو وعظ و نصیحت اور ضرورت ہدایات دی جاتی تھی اور تاخیر ہونے کی وجہ سے نمازی راستے میں ہی نماز ادا کرلیتے تھے۔ اسی کے ذریعے عیدگاہ سے چاند اور نماز کا اعلان کیا جاتا تھا مگر ضلع انتظامیہ نے مائک پر روک لگا دی ہے جس سے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ عیدگاہ کے احاطہ میں مائک لگانے کی پوری آزادی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.