گیا: ریاست بہار کے شہر گیا میں کئی قبرستان ہیں لیکن شہر کے دو بڑے قبرستان ایسے ہیں جو قبرستان کے ساتھ یہ پارک کے لیے بھی معروف ہیں۔ قبروں کے درمیان اب تو لوگوں کی چہل قدمی کا بھی معمول ہے۔ قبرستان کو پیڈ اور پودوں سے اس طرح سجایا گیا کہ دوسرا شہر گیا میں کوئی سبز پارک بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صبح و شام لوگوں کی بڑی تعداد یہاں پہنچتی ہے حالانکہ ان میں زیادہ تر وہ ہوتے ہیں جو اپنے مرحومین کی قبر پر بلاناغہ فاتحہ پڑھنے آتے ہیں۔ چونکہ قبرستان کا احاطہ کافی بڑا ہے اور پورے علاقے میں ہر طرح کے درخت اور کئی قسم کے پھول کے پودے لگے ہونے کے ساتھ قبرستان کے اندرونی حصے میں پختہ راستہ ہے جو انتہائی صاف ستھرے ہیں تو یہاں آنے والوں کو چہل قدمی میں آسانی ہوتی ہے۔ شہر گیا میں واقع ان دونوں قبرستانوں میں ایک کریم گنج اور نیو کریم گنج قبرستان ہے تو دوسرا قبرستان بھٹ بیگہ قبرستان ہے۔ کریم گنج قبرستان خالص مسلم محلے میں واقع ہے جبکہ بھٹ بیگہ قبرستان جس محلے میں واقع ہے وہاں ایک بھی گھر مسلم طبقہ کا نہیں ہے لیکن دونوں قبرستان انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پیڈ پودوں سے سجے ہیں۔
ان قبرستانوں سے ماحولیات کو زہر آلود ہونے سے بچانے کا بھی پیغام دیاجاتا ہے۔ حالانکہ ان قبرستانوں کو بنانے میں عوامی تعاون کے ساتھ میونسپل کارپوریشن کا بڑا تعاون ہے۔ قبرستان کی دیکھ ریکھ انتظام وانصرام خالص عوامی تعاون سے ہے۔ کریم گنج قبرستان میں لائٹ، پختہ سڑک ،پختہ نالی وغیرہ کے ساتھ عالیشان صدر دروازہ اور کمیونیٹی ہال کی تعمیر میونسپل کارپوریشن کے توسط سے ہوئے ہیں۔ حالانکہ قبرستان کو پارک کی شکل میں تبدیل کرنے میں قبرستان کمیٹی اور مقامی باشندوں کے ساتھ وارڈ سطح کے رہنماوں کا بڑا تعاون ہے۔ یہاں لوگوں کے آنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وارڈ نمبر 25 کریم گنج اور وارڈ 26 نیوکریم گنج کے اس علاقے میں کوئی بڑا میدان اور پارک نہیں ہے۔ قبرستان دونوں محلے کے درمیان میں واقع ہے۔ دونوں محلوں کی آبادی 50 ہزار سے زیادہ ہوگی اور اس میں صرف مسلم آبادی ہے تو یہاں محلے میں فجر کی نماز کے ساتھ چہل پہل شروع ہوجاتی ہے۔ چونکہ قبرستان محلے کے درمیان میں واقع ہے تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد خا برسوں پرانا معمول قبرستان پہنچ کر فاتحہ پڑھنے کا ہے۔
تاہم گزشتہ آٹھ دس برسوں سے فاتحہ پڑھنے والوں کے معمول میں ہوگیا ہے کہ وہ یہاں چہل قدمی بھی کرلیتے ہیں گویا کہ قبرستان میں اب ایک وقت میں دو چیزیں ہوتی ہیں۔ مردوں کے حق میں ایصال ثواب کی غرض سے فاتحہ پڑھاجاتاہے اورانکی مغفرت و بخشش کے لیے دعا کی جاتی ہے تو زندہ افراد اپنے حق میں صحت و تندرستی کے لیے چہل قدمی کرلیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی کہنا بجا نہیں ہوگا کہ یہاں صرف چہل قدمی کی غرض سے لوگ نہیں آتے بلکہ وہی آتے ہیں جنکا معمول فاتحہ پڑھنا ہے اور چند ایسے ہوتے ہیں جنکے مکانات، دوکان قبرستان سے متصل ہیں تو انکا یہاں آنا ہروقت لگا ہوتا ہے کیونکہ یہاں قبرستان کے صدردروازے کے پاس میں کئی ایسی سہولت ہیں جس سے لوگ فائدہ اٹھانے اور استعمال کرنے پہنچتے ہیں جس میں آر او واٹر مشین، استنجا خانہ بیت الخلاء وضوخانہ وغیرہ شامل ہیں اور اس سے استعفادہ کے لیے کسی پر پابندی نہیں ہے ۔ 16 ایکڑ میں پھیلی اس قبرستان میں قریب 2500 درخت اور پودے لگے ہوئے ہیں
سبھی کی مدد اور تعاون سے ممکن ہوا
سابق سکریٹری کامریڈ نہال احمد نے کہا کہ پہلے اس کی قبرستان کی حالت عام قبرستانوں کی طرح ہی تھی۔ محلے کا ایک بڑا نالہ اسی قبرستان کے درمیان سے ہوکر گزرا ہے جو پہلے پختہ نہیں تھا لیکن کئی برس پہلے میونسپل کارپوریشن کے تعاون سے اسے پختہ کرلیا گیا اور وہیں سے قبرستان میں کام ہونا شروع ہوا۔ چہار دیواری کی تعمیر کے ساتھ پانی کا کنکشن، بورنگ اور قبرستان کی صفائی ستھرائی کر اسے پارٹ پارٹ میں تبدیل کیا گیا اور ایک پارٹ سے دوسرے پارٹ تک پہنچنے کے لیے راستہ بھی پختہ کیا گیا۔ موجودہ جوائنٹ سکریٹری اور سابق وارڈ کونسلر ابرار احمد کی ذاتی دلچسپی اور محنت سے پھول پودے اور کئی اقسام کے درخت یہاں لگائے گئے۔ اسکی شروعات کئی برسوں قبل ہوئی تھی جو آج یہاں پودے درخت بنکر کھڑے ہیں۔ نہال احمد نے کہاکہ یہاں تمام تر سہولتیں فراہم کردی گئی ہیں خاص کر بجلی اور پانی کا نظام اچھا کیا گیا ہے تاکہ یہاں آنے والے رات کے آخری حصے میں بھی آئیں تو انہیں پریشانی واقع نہیں ہوں۔ انہوں نے کہاکہ ہردن 2 سو سے 3 سو لوگوں کی آمد ہوتی ہے۔ قریب 16 ایکڑ اراضی پر پھیلے اس قبرستان کی دیکھ بھال کے لیے 13 رکنی کمیٹی ہےجسکے ماتحت سارے انتظام و انصرام ہیں۔
تدفین کے لیے لی جاتی ہے فیس
قبرستان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ لوگوں کے ذریعہ عطیات کی رقم ہیں جبکہ دوسرے ذریعے کے طور پر یہاں تدفین کے لیے فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ سابق سکریٹری نہال احمد کے مطابق 3000 روپیے تدفین کے لیے لیے جاتے ہیں جبکہ چھوٹے بچوں کی میت کی تدفین کے لیے 900 روپیے فیس ہے ہر ماہ یہاں شہر گیا سے قریب 30 سے 35 تدفین ہوتی ہے۔
بہار کی ہے منفرد قبرستان
گیا شہر میں قریب 5 قبرستان ہیں جن میں دو قبرستان سے زیادہ ایک پارک کے لئے معروف ہیں۔ حالانکہ صرف کریم گنج قبرستان میں لوگ چہل قدمی کرتے ہیں بھٹ بیگہ قبرستان میں یہ معمول نہیں ہے کیونکہ یہاں پر مسلم آبادی نہیں ہے لوگ یہاں آتے ہیں تو سیدھے فاتحہ پڑھ کر گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں جبکہ کریم گنج قبرستان میں یہ معاملہ نہیں ہے یہاں ہروقت لوگ ملیں گے
کریم گنج قبرستان میں عصر کی نماز کے بعد اپنے بیٹے کی قبر پر فاتحہ پڑھنے پہنچے قاری محمد مسلم فدائی نے کہا کہ یہ جگہ بہت پرامن ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہاں بہت سے لوگ آتے ہیں اور فاتحہ پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے، لیکن صبح و شام چہل قدمی کرنے والے بھی یہاں ملیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ سڑک حادثے میں انکے جواں سال بیٹے کی موت ہوگئی تھی وہ بہت گمزده رہتے تھے لیکن جب یہاں قبرستان میں بیٹے کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آنا شروع کیا تو بڑا سکون ملا، دو گھنٹہ وقت یہاں فاتحہ پڑھنے اور چہل قدمی میں گزارتے ہیں۔ یہاں آنے سے اعمال خود بخود یاد آتے ہیں کہ ہمیں یہیں مرکر آنا ہے۔ مقامی باشندہ محمد ارشد حسین نے کہا کہ آپ کو بہار میں ایسا کوئی دوسرا قبرستان نہیں ملے گا جیسا کہ گیا میں ہے۔ یہاں لوگ اسلئے چہل قدمی کرتے ہیں کہ یہاں کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ گاندھی میدان کے لئے دور جانا پڑے گا اس وجہ سے یہاں دونوں کام ہوجاتا ہے فاتحہ خوانی بھی ہوجاتی ہے اور چہل قدمی بھی ہوتی ہے۔
ہر ماہ 70 ہزار کے قریب ہے خرچ
یہاں قبرستان کے رکھ رکھاو کے لیے 7 اہلکار تعینات ہیں۔ قبرستان کے باغیچے میں پانی ڈال رہے شارخ شاہ نے کہا کہ وہ سات اہلکار ہیں جوصفائی سے لیکر ہر طرح کے کام کرتے ہیں انہیں باضابطہ اسکے لیے تنخواہ کمیٹی سے ملتی ہے۔ یہاں قبرستان میں ہر ماہ قریب 70 ہزار روپیے خرچ ہیں ۔تنخواہ کے علاوہ لائٹ بجلی بل پیڈ پودوں کے رکھ رکھاو وغیرہ کے علاوہ دیگر اخرجات ہیں۔ اس قبرستان کے صدر دروازہ پر ایک عظیم الشان کمیونیٹی ہال ہے گزشتہ دو برس قبل میونسپل کارپوریشن نے تعمیر کرایا تھا۔ یہاں کانفرنس سمیت کئی طرح کی میٹنگیں اور دیگر پروگرام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسکو بنانے کا مقصد مسلم بچوں کو سیلف اسٹڈی کی تیاری کے لیے لائبریری قائم کرنا بھی ہے۔ جلد ہی یہاں مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے والوں کے لیے انتظامات کرائے جائیں گے۔