ETV Bharat / state

گیا: میاں بیوی نے ملکر 4 ایکڑ بنجر زمین پر بنادیا ہرا بھرا باغ - barren land

گیا کے رہنے والے ایک شوہر بیوی نے 4 ایکڑ کے قریب بنجر اراضی کو سبز و شاداب کردیاہے۔ یہاں روایتی کاشت دھان گیہوں کی کاشتکاری کے ساتھ انکا ایک بڑا باغ ہے۔جس میں 600 امرود ،600کے قریب آم اور لیمبو سمیت دوسرے پھل دار و غیر پھل دار درخت ہیں۔ ابھی اس باغ سے انکی ایک موسم میں چھ سے سات لاکھ روپے سے زیادہ کی آمدنی ہے۔ ایک وقت تھا جب اس علاقے میں دن میں بھی لوگ نکسلیوں کے جانے سے ڈر تھے لیکن اب انکے باغ میں ضلع اور مختلف علاقوں سے پھل کے تھوک تاجر آم امرود خریدنے آتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ ثمینہ خاتون پیشہ سے ٹیچر تھیں لیکن انہوں نے اپنے شوہر علی خان کے اس شوق کے لیے اپنے پیشے سے سبکدوش ہو کر برابری کی شریک رہی ہیں۔

گیا: میاں بیوی نے ملکر 4 ایکڑ بنجر زمین پر بنادیا ہرا بھرا باغ
گیا: میاں بیوی نے ملکر 4 ایکڑ بنجر زمین پر بنادیا ہرا بھرا باغ
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 9, 2024, 9:15 PM IST

گیا: میاں بیوی نے ملکر 4 ایکڑ بنجر زمین پر بنادیا ہرا بھرا باغ

گیا:ریاست بہار کے ضلع گیا کے رہنے والے علی خان اور انکی اہلیہ ثمینہ خانم نے سات سال کی محنت کے بعد بنجر زمین کو سرسبز و شاداب بنا دیا ہے۔ علی خان اپنے ایک رشتے دار سے متاثر ہو کر نہ صرف بنجر زمین کو سرسبز و شاداب بنایا بلکہ وہاں امرود، آم ، لیمبو ، کٹھل، جامن وغیرہ کا ایک بڑا باغ بھی بنایاہے۔ جس جگہ پر یہ باغ واقع ہے وہ ضلع ہیڈ کوارٹر سے قریب 90 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع امام گنج کوٹھی کا دوریا گاوں ہے۔ کوٹھی کا یہ علاقہ پچھڑا اور نکسل متاثرہ ہے، علی خان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اس باغ میں دو ہزار درخت موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر امرود اور آم کے درخت ہیں۔ اس جگہ پر آبپاشی کا انتظام نہیں ہونے کی وجہ سے زمین بنجر تھی ۔ علی خان نے کہا کہ ابتدا میں انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ آبپاشی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ انہیں اور ان کی اہلیہ کو پودوں کو پانی دینے کے لیے کافی مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی لوگوں کے تعاون سے کسی طرح پودوں کی آبپاشی کی۔ خاص بات یہ ہے کہ ثمینہ ایک نجی کالج میں پرنسپل تھیں ،لیکن انہوں نے اپنے اس پڑھانے کے کام کو چھوڑ کر باغبانی اور اس کے پھلوں سے مختلف کھانے اور پینے کے پروڈکٹ ' اشیاء ' تیار کرنے میں مصروف ہوگئیں جیسے امرود آم کا جام ، رس وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔

چار ایکڑ اراضی پر واقع ہے باغ

علی خان اور انکی اہلیہ ثمینہ خان کا یہ باغ قریب چار ایکڑ اراضی پر واقع ہے۔ امرود کے چھ سو درخت، آم کے چھ سو درخت اور دیگر پھل دار اور غیر پھل دار درخت ملاکر قریب 2000 درخت ہیں۔ علی خان اور انکی اہلیہ ثمینہ خانم نے بتایا کہ انکو پہلے سے کاشتکاری کا شوق تھا کیونکہ انکے والد بھی ایک کاشتکار تھے لیکن علاقے کے حالات بہتر نہیں ہونے کے سبب ان لوگوں کا کاشتکاری سے وابستگی ختم ہو گئی تھی خاص کر علاقے میں جب نکسلزم کا دور عروج پر تھا اس وقت یہاں جس جگہ پر باغ ہے وہاں آنا خطرہ بھرا معاملہ پیش ہوتا تھا لیکن حالت بہتر ہوئے تو اُنہوں نے ' شوہر بیوی ' نے ملکر کام شروع کردیا اور آہستہ آہستہ آج دو ہزار سے زائد درخت ہوگئے ہیں مزید اسکو پھیلانے کی کوشش ہے۔

ہزاروں پودے جل کر خاکستر ہوگئے تھے

علی خان اور انکی اہلیہ ثمینہ خانم نے آٹھ برس قبل باغ کی شروعات کی تھی، لیکن جب پودے کچھ بڑے ہوئے تو اُنکے ساتھ ایک بڑا حادثہ ہوگیا، گرمی کے موسم میں انکے باغ میں آگ لگ گئی جسکی وجہ سے پانچ سو سے زائد امردود کے درخت جل کر خاکستر ہوگئے مگر اس کے بعد بھی اُنہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ پہلے کی بنسبت مزید زیادہ پرجوش ہوکر محنت کی جسکے نتیجے میں آج علاقے کا سب سے بڑا انکا باغ ہوگیا ہے۔

آسان نہیں تھی باغبانی

کوٹھی کا دوریا گاوں میں گرمی کے ایام میں سب سے زیادہ پانی کا بحران ہوتا ہے۔ پانی ہر جگہ پر نہیں ہونے کی وجہ سے کافی دور سے آبپاشی کا انتظام کرنا ہوتا ہے ۔ انہوں نے خود کی ایک بورنگ کروایا ہے اور ڈیزل پمپ سے اسکی آبپاشی کرتے ہیں۔ انکے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ یہ شہر گیا میں رہتے ہیں اور وہاں سے ہفتے میں دو تین دن نوے کلو میٹر چل کر باغ کی دیکھ ریکھ کے لیے پہنچتے تھے جوکہ یہ کرنا آسان نہیں تھا لیکن انہوں نے محنت کی ، گاوں کے کچھ لوگوں کا اُنہیں ساتھ ملا خاص کر باسو خان نے انکے باغ کی بڑی ذمےداری کے ساتھ دیکھ بھال کی اور اسکی حفاظت کی ، گاوں میں درج فہرست طبقات کی آبادی ہے، دو تین گھر ہی مسلم طبقے کا ہے لیکن سبھی کا ساتھ مل رہاہے ۔ علی خان نے بتایا کہ اب تو انہوں نے باضابطہ 5 افراد کو باغ کی دیکھ بھال کے لیے رکھا ہے جو یہاں آبپاشی اور دیگر کام کرتے ہیں۔

لاکھوں کی ہے آمدنی

آم اور امرود کی باغبانی ایک منافع بخش کاشت ہے۔اس سے لاکھوں کی آمدنی ہورہی ہے۔ محمد علی خان اور ثمینہ خانم کے باغ سے ابھی ایک موسم میں 6 سے 7 لاکھ روپیے کی آمدنی ہے۔ انکی زمین خاندانی ہے جس سے انکی لاگت بھی زمین خریدنے کی نہیں آئی ہے۔ انکے باغیچہ میں امرود کی پیدوار 50 کوئنٹل ہے اور انکے آم امرود کی مانگ دوسری ریاستوں میں بھی ہے۔ سیزن میں ہردن ثمینہ 15 کلو امرود کا جیم بھی بناتی ہیں اور انکا جیم کافی مقبول ہے۔ انکے باغیچہ میں 5 قسم کے امردو ہیں جن میں سب سے مہنگا تائیوانی امرودہے اسکے علاوہ سفیدا ، الہ آبادی اور دیسی امرود کے ساتھ بڑے سائز کا امرود ہےجبکہ آم کی بھی کئی اقسام انکے پاس موجود ہیں۔ گویا کہ آج میاں بیوی دونوں ایک کامیاب کاشتکار اور تاجر ہیں۔ ثمینہ نے کہاکہ اپنے شوہر کے فیصلے کے ساتھ باغبانی کرنے کافیصلہ انکا کامیاب اور بہتر رہاہے۔ ایک دوسرے پر اعتماد کے ساتھ گھروالوں کا بھی بھر پور تعاون ملا ہے۔

گیا: میاں بیوی نے ملکر 4 ایکڑ بنجر زمین پر بنادیا ہرا بھرا باغ

گیا:ریاست بہار کے ضلع گیا کے رہنے والے علی خان اور انکی اہلیہ ثمینہ خانم نے سات سال کی محنت کے بعد بنجر زمین کو سرسبز و شاداب بنا دیا ہے۔ علی خان اپنے ایک رشتے دار سے متاثر ہو کر نہ صرف بنجر زمین کو سرسبز و شاداب بنایا بلکہ وہاں امرود، آم ، لیمبو ، کٹھل، جامن وغیرہ کا ایک بڑا باغ بھی بنایاہے۔ جس جگہ پر یہ باغ واقع ہے وہ ضلع ہیڈ کوارٹر سے قریب 90 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع امام گنج کوٹھی کا دوریا گاوں ہے۔ کوٹھی کا یہ علاقہ پچھڑا اور نکسل متاثرہ ہے، علی خان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اس باغ میں دو ہزار درخت موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر امرود اور آم کے درخت ہیں۔ اس جگہ پر آبپاشی کا انتظام نہیں ہونے کی وجہ سے زمین بنجر تھی ۔ علی خان نے کہا کہ ابتدا میں انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ آبپاشی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ انہیں اور ان کی اہلیہ کو پودوں کو پانی دینے کے لیے کافی مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی لوگوں کے تعاون سے کسی طرح پودوں کی آبپاشی کی۔ خاص بات یہ ہے کہ ثمینہ ایک نجی کالج میں پرنسپل تھیں ،لیکن انہوں نے اپنے اس پڑھانے کے کام کو چھوڑ کر باغبانی اور اس کے پھلوں سے مختلف کھانے اور پینے کے پروڈکٹ ' اشیاء ' تیار کرنے میں مصروف ہوگئیں جیسے امرود آم کا جام ، رس وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔

چار ایکڑ اراضی پر واقع ہے باغ

علی خان اور انکی اہلیہ ثمینہ خان کا یہ باغ قریب چار ایکڑ اراضی پر واقع ہے۔ امرود کے چھ سو درخت، آم کے چھ سو درخت اور دیگر پھل دار اور غیر پھل دار درخت ملاکر قریب 2000 درخت ہیں۔ علی خان اور انکی اہلیہ ثمینہ خانم نے بتایا کہ انکو پہلے سے کاشتکاری کا شوق تھا کیونکہ انکے والد بھی ایک کاشتکار تھے لیکن علاقے کے حالات بہتر نہیں ہونے کے سبب ان لوگوں کا کاشتکاری سے وابستگی ختم ہو گئی تھی خاص کر علاقے میں جب نکسلزم کا دور عروج پر تھا اس وقت یہاں جس جگہ پر باغ ہے وہاں آنا خطرہ بھرا معاملہ پیش ہوتا تھا لیکن حالت بہتر ہوئے تو اُنہوں نے ' شوہر بیوی ' نے ملکر کام شروع کردیا اور آہستہ آہستہ آج دو ہزار سے زائد درخت ہوگئے ہیں مزید اسکو پھیلانے کی کوشش ہے۔

ہزاروں پودے جل کر خاکستر ہوگئے تھے

علی خان اور انکی اہلیہ ثمینہ خانم نے آٹھ برس قبل باغ کی شروعات کی تھی، لیکن جب پودے کچھ بڑے ہوئے تو اُنکے ساتھ ایک بڑا حادثہ ہوگیا، گرمی کے موسم میں انکے باغ میں آگ لگ گئی جسکی وجہ سے پانچ سو سے زائد امردود کے درخت جل کر خاکستر ہوگئے مگر اس کے بعد بھی اُنہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ پہلے کی بنسبت مزید زیادہ پرجوش ہوکر محنت کی جسکے نتیجے میں آج علاقے کا سب سے بڑا انکا باغ ہوگیا ہے۔

آسان نہیں تھی باغبانی

کوٹھی کا دوریا گاوں میں گرمی کے ایام میں سب سے زیادہ پانی کا بحران ہوتا ہے۔ پانی ہر جگہ پر نہیں ہونے کی وجہ سے کافی دور سے آبپاشی کا انتظام کرنا ہوتا ہے ۔ انہوں نے خود کی ایک بورنگ کروایا ہے اور ڈیزل پمپ سے اسکی آبپاشی کرتے ہیں۔ انکے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ یہ شہر گیا میں رہتے ہیں اور وہاں سے ہفتے میں دو تین دن نوے کلو میٹر چل کر باغ کی دیکھ ریکھ کے لیے پہنچتے تھے جوکہ یہ کرنا آسان نہیں تھا لیکن انہوں نے محنت کی ، گاوں کے کچھ لوگوں کا اُنہیں ساتھ ملا خاص کر باسو خان نے انکے باغ کی بڑی ذمےداری کے ساتھ دیکھ بھال کی اور اسکی حفاظت کی ، گاوں میں درج فہرست طبقات کی آبادی ہے، دو تین گھر ہی مسلم طبقے کا ہے لیکن سبھی کا ساتھ مل رہاہے ۔ علی خان نے بتایا کہ اب تو انہوں نے باضابطہ 5 افراد کو باغ کی دیکھ بھال کے لیے رکھا ہے جو یہاں آبپاشی اور دیگر کام کرتے ہیں۔

لاکھوں کی ہے آمدنی

آم اور امرود کی باغبانی ایک منافع بخش کاشت ہے۔اس سے لاکھوں کی آمدنی ہورہی ہے۔ محمد علی خان اور ثمینہ خانم کے باغ سے ابھی ایک موسم میں 6 سے 7 لاکھ روپیے کی آمدنی ہے۔ انکی زمین خاندانی ہے جس سے انکی لاگت بھی زمین خریدنے کی نہیں آئی ہے۔ انکے باغیچہ میں امرود کی پیدوار 50 کوئنٹل ہے اور انکے آم امرود کی مانگ دوسری ریاستوں میں بھی ہے۔ سیزن میں ہردن ثمینہ 15 کلو امرود کا جیم بھی بناتی ہیں اور انکا جیم کافی مقبول ہے۔ انکے باغیچہ میں 5 قسم کے امردو ہیں جن میں سب سے مہنگا تائیوانی امرودہے اسکے علاوہ سفیدا ، الہ آبادی اور دیسی امرود کے ساتھ بڑے سائز کا امرود ہےجبکہ آم کی بھی کئی اقسام انکے پاس موجود ہیں۔ گویا کہ آج میاں بیوی دونوں ایک کامیاب کاشتکار اور تاجر ہیں۔ ثمینہ نے کہاکہ اپنے شوہر کے فیصلے کے ساتھ باغبانی کرنے کافیصلہ انکا کامیاب اور بہتر رہاہے۔ ایک دوسرے پر اعتماد کے ساتھ گھروالوں کا بھی بھر پور تعاون ملا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.