بھاگلپور: اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ، سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔ استاذ شاعر داغ دہلوی کا یہ شعر موجودہ حالات میں بھی موزوں ہے، آج مشرق وسطی کے ممالک ہوں یا یوروپ اردو زبان کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے لیکن بدقسمتی سے اس خوبصورت زبان یعنی اردو کا جہاں جنم میں ہوا (ہندوستان) میں اسی سرزمین پر اس کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا جا رہا ہے، ایک مخصوص طبقہ اس زبان کو ایک خاص مذہب کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہا ہے۔ اور اس میں بڑی حد تک اردو کے حاسدین کو کامیابی بھی ملی ہے لیکن شنکر کیموری جیسے شعراء اور اردو کے چاہنے والے سینہ سپر ہوکر اپنی زبان کی آبیاری میں مصروف عمل ہیں۔
شنکر کیموری ریاست بہار میں اردو شاعر کی حیثیت سے ایک معتبر نام ہے۔ اردو کو ایک خاص طبقے سے جوڑنے کی کوشش کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اردو کو کسی خاص مذہب کے ساتھ جوڑنا غلط ہے۔ اس لیے کہ اس زبان کو سبھی طبقے نے آبیاری کی ہے۔ آنند نارائن ملا سے لے کر فراق گورکھپوری، گلزار دہلوی جیسے سینکڑوں لوگ ہیں جنہوں نے اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اردو کے رسم الخط کو تبدیل کرنے کے تعلق سے بھی اپنی بات رکھی، انہوں نے کہا کہ کسی زبان کا رسم الخط اس کی روح ہوتی ہے ایسے میں اگر رسم الخط کو تبدیل کیا گیا تو اس کی جان باقی نہیں رہے گی۔ شنکر کیموری آل ریڈیو سے منسلک رہے ہیں اور ریڈیو اناؤنسر کے حوالے سے ایک بڑا نام ہے۔ اس کے علاوہ حمد نعت اور منقبت کے لیے مشہور ہیں۔ حالیہ دنوں ایک پروگرام میں شرکت کے دوران ان سے ملاقات ہوئی اور ان سے ہمارے نمائندہ نے خاص بات چیت کی۔