احمد آباد: مذہبی مقامات کو احمدآباد میونسپل کارپوریشن کی نوٹس کے مسئلے پر ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سابق رکن اسمبلی غیاث الدین شیخ نے کہا کہ یہ نوٹس صرف مساجد اور خانقاہوں کو نہیں دی گئی ہے بلکہ مندروں کو بھی جاری کی گئی ہے اور اس کا اثر کسی ایک طبقے پر نہیں بلکہ پورے سبھی سماج پر پڑنے والا ہے۔ اس نوٹس کی وجہ سے اس وقت لوگوں میں ڈر کا ماحول ہے۔ کہیں پر صدیوں پرانے بھی مزارات اور مساجد ہیں تو کہیں پر صدیوں پرانے مندر بھی ہیں۔
سابق رکن اسمبلی نے کہا کہ پہلے جب یہاں اتنا ڈولپمنٹ نہیں ہوا تھا تو لوگوں نے اپنی نجی جگہوں پر مذہبی مقامات بنا لیے لیکن جیسے جیسے ڈیولپمنٹ ہوا ٹی پی فائنل ہوئی۔ اس وقت ایسا ہوا کہ کئی مقامات پر مزارات، مساجد اور مندر روڈ اور راستوں کی زد میں آ گئے جسے کورٹ نے اپنی گائیڈ لائن کے مطابق راستے میں آنے والے مقامات کو توڑنے کا حکم دیا۔ اسی بنیاد پر یہ نوٹس جاری کی گئی ہے۔ اس کو لے کر کے سبھی ذمہ دار ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں اور معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس ضمن میں احمدآباد میونسپل کمشنر سے بھی بات کی ہے۔ ایک میٹنگ کا بھی اہتمام کیا جائے گا جس میں اس معاملے پر غور وفکر کیا جائے گا۔
مدنی مسجد کے معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں کہا کہ مدنی مسجد 400 سال پرانی ہے۔ منیر کلیمی صاحب اور پٹھان فیروز اس مسجد کے ٹرسٹی ہیں۔ جب احمد آباد کا قیام ہوا تھا، یہ مسجد اس وقت کی بتائی جاتی ہے۔ یہ پہلے علاقے کی عید گاہ تھی اور اس کے بعد یہ مسجد میں تبدیل ہوئی۔ اسے پانچ مرتبہ مندہم کیا گیا۔ پہلے 1969 میں، اس کے بعد 1985 میں، پھر 1992 میں اور اس کے بعد 2002 میں اسے مسمار کیا گیا۔ اس کے باجود اس کی بار بار از سر نو تعمیر ہوتی رہی۔ آخر میں جب یہ 2017 میں پالڈی انجلی میں پل بن رہا تھا تب بھی اسے نوٹس دی گئی تھی۔ تب گورنمنٹ کے ساتھ اے ایم سی کارپوریشن والوں کے ساتھ مسلم لیڈران نےمیٹنگ کی تو چار میٹر انہوں نے مسجد کو۔پیچھے کرنے کی ہدایت دی۔ اس کے عوض میں انہوں نے یہ کہا کہ آپ ایک منزل اوپر بنا لیجیے تو اس وجہ اوپر ایک اور منزل بنائی گئی۔ اس کے بعد یہ مسئلہ ٹھنڈا ہو گیا لیکن ابھی جب تازہ مسئلہ اٹھا تو 2500 مذہبی مقامات میں اسے بھی شامل کر لیا گیا اور اس مسجد کو چھٹویں بار نوٹس جاری کر دیا گیا۔ حالانکہ یہ مسجد ایک وقف کی گئی زمین پر بنی ہے اور اس کی رجسٹرڈ باڈی بھی وقف میں رجسٹرڈ ہے۔ وہیں اسے لینڈ ریکارڈ میں بھی رجسٹر کروانے کی کاروائی شروع کر دی گئی ہے۔
غیاث الدین شیخ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ مساجد سے زیادہ مندروں کو نوٹس ملی ہے اور دوسری کی برادری کے لوگ بھی اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ سبھی طبقے کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اس معاملے پر نظر ثانی کی جائے اور مذہبی مقامات کو نہ توڑا جائے۔