دہلی : شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں ویسے تو 53 افراد کی جان گئی تھی لیکن ایک نوجوان ایسا بھی تھا جسے پولیس اہلکار مار رہے تھے اور ان سے قومی ترانہ گانے کا مطالبہ کر رہے تھے اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی خوب وائرل ہوئی تھی جس کے اگلے ہی دن فیضان نامی مسلم نوجوان کی موت کی خبر سامنے آئی تھی۔ اس واقعہ کو آج 4 برس سے زیادہ کا وقفہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک ان پولیس اہلکاروں کی شناخت نہیں کی گئی ہے جو فیضان اور اس کے ساتھیوں پر لاٹھی ڈنڈے برسا رہے تھے اور قومی ترانہ گانے کو کہ رہے تھے فیضان کی ماہ قسمت النسا نے اپنے بیٹے کی موت کے بعد اسے انصاف دلانے کے لیے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا لیکن ابھی تک اس معاملے میں مجرم فرار ہے۔
حالانکہ یہ اتنا مشکل بھی نہیں کہ اس شخص کی شناخت ہی نہ ہو سکے جو ویڈیو میں صاف نظر آ رہا ہے اور پھر وہ دہلی پولیس کی وردی میں تھا جس سے اسے ڈھونڈ پانا مزید آسان ہو جاتا ہے اور عدالت بھی کئی بار تفتیشی افسران کو پھٹکار لگا چکی ہے اس کے باوجود ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اسی سے متعلق فیضان کی جانب سے عدالت میں پیروی لر رہی سینیئر ایڈووکیٹ ورندہ گروور نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ گذشتہ 4 برسوں سے کرائم برانچ عدالت کے سامنے بس یہی کہتی آ رہی ہے کہ وہ ابھی ابھی ویڈیو کی جانچ کر رہے ہیں اور ابھی تکنیک کا استعمال کر رہے ہیں ان کے پاس ہر بار ایک نئی کہانی ہوتی ہے لیکن ان کہانیوں کا نتیجہ ابھی تک نہیں آیا ہے۔
ایڈووکیٹ ورندا گروور نے مزید کہا کہ پولیس کا مسلمانوں کے خلاف کیا رویہ ہے اور پولیس افسران مسلمانوں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں اسے قانون میں انسٹیٹیوشنل بائیسڈ کہا جاتا ہے جو امریکہ میں کالے لوگوں کے ساتھ کیا جاتا تھا اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا کسی پولیس اہلکار کو اس بات کی فکر ہے کہ جس شخص نے فیضان کو پولیس کی وردی میں پیٹ پیٹ کر مار دیا وہ آج بھی پولیس کی وردی میں کھلے عام پھر رہا ہے اس پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کی شناخت ہو پائی۔
فیضان کی موت کے 4 سال بعد بھی اس پولیس اہلکار کی شناخت نہیں ہو پائی - DELHI RIOTS
Even after 4 years of Faizan's death پولیس کا مسلمانوں کے خلاف کیا رویہ ہے اور پولیس افسران مسلمانوں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں اسے قانون میں انسٹیٹیوشنل بائیسڈ کہا جاتا ہے جو امریکہ میں کالے لوگوں کے ساتھ کیا جاتا تھا اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
Published : Apr 2, 2024, 10:10 PM IST
دہلی : شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں ویسے تو 53 افراد کی جان گئی تھی لیکن ایک نوجوان ایسا بھی تھا جسے پولیس اہلکار مار رہے تھے اور ان سے قومی ترانہ گانے کا مطالبہ کر رہے تھے اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی خوب وائرل ہوئی تھی جس کے اگلے ہی دن فیضان نامی مسلم نوجوان کی موت کی خبر سامنے آئی تھی۔ اس واقعہ کو آج 4 برس سے زیادہ کا وقفہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک ان پولیس اہلکاروں کی شناخت نہیں کی گئی ہے جو فیضان اور اس کے ساتھیوں پر لاٹھی ڈنڈے برسا رہے تھے اور قومی ترانہ گانے کو کہ رہے تھے فیضان کی ماہ قسمت النسا نے اپنے بیٹے کی موت کے بعد اسے انصاف دلانے کے لیے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا لیکن ابھی تک اس معاملے میں مجرم فرار ہے۔
حالانکہ یہ اتنا مشکل بھی نہیں کہ اس شخص کی شناخت ہی نہ ہو سکے جو ویڈیو میں صاف نظر آ رہا ہے اور پھر وہ دہلی پولیس کی وردی میں تھا جس سے اسے ڈھونڈ پانا مزید آسان ہو جاتا ہے اور عدالت بھی کئی بار تفتیشی افسران کو پھٹکار لگا چکی ہے اس کے باوجود ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اسی سے متعلق فیضان کی جانب سے عدالت میں پیروی لر رہی سینیئر ایڈووکیٹ ورندہ گروور نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ گذشتہ 4 برسوں سے کرائم برانچ عدالت کے سامنے بس یہی کہتی آ رہی ہے کہ وہ ابھی ابھی ویڈیو کی جانچ کر رہے ہیں اور ابھی تکنیک کا استعمال کر رہے ہیں ان کے پاس ہر بار ایک نئی کہانی ہوتی ہے لیکن ان کہانیوں کا نتیجہ ابھی تک نہیں آیا ہے۔
ایڈووکیٹ ورندا گروور نے مزید کہا کہ پولیس کا مسلمانوں کے خلاف کیا رویہ ہے اور پولیس افسران مسلمانوں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں اسے قانون میں انسٹیٹیوشنل بائیسڈ کہا جاتا ہے جو امریکہ میں کالے لوگوں کے ساتھ کیا جاتا تھا اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا کسی پولیس اہلکار کو اس بات کی فکر ہے کہ جس شخص نے فیضان کو پولیس کی وردی میں پیٹ پیٹ کر مار دیا وہ آج بھی پولیس کی وردی میں کھلے عام پھر رہا ہے اس پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کی شناخت ہو پائی۔