مرادآباد (اترپردیش): اتر پردیش کے ضلع مراد آباد میں انڈین یونین مسلم لیگ کے کارکنوں اور عہدیداروں نے مراد آباد کے ضلع افسر کو ایک میمورنڈم دے کر مطالبہ کیا کہ 13 اگست 1980 کو عیدگاہ میں فائرنگ میں شہید ہونے والوں کے ساتھ انصاف کیا جائے اور قاتلانہ حملے کی مذمت کی جائے۔
واضح رہے کہ مرادآباد اور عیدگاہ میں فائرنگ کے اس واقعہ میں سینکڑوں بے گناہ لوگ مارے گئے تھے اور بے گناہ مسلمانوں کو عید گاہ میں ہی نماز پڑھتے ہوئے شہید کیا گیا تھا اور آج تک اس معاملے کی تحقیقات نہیں ہوئی اور نہ ہی مجرموں کو سزا دی گئی۔
13 اگست 1980 کی اس عید کی رات کو 84 افراد، جن میں 70 مسلمان تھے، شہید کردئے گئے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ڈی پی سنگھ، جنہوں نے عید گاہ اور شہر میں امن بحال کرنے کی کوشش کی تھی، مگر ہجوم نے ان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ چار پولیس کانسٹیبل دھریندر سنگھ، ہری دت پنت، مگن آنند اور پرسادی لال کو نہ معلوم لوگوں نے قتل کر دیا تھا۔ جس کے بعد تشدد بھڑکا تھا۔
انڈین یونین مسلم لیگ نیشنل کے جوائنٹ جنرل سیکرٹری کوثر حیات خان نے ای ٹی وی بھارت اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 44 سال گزرنے کے بعد بھی ان بے گناہ مسلمانوں کو کوئی انصاف نہیں ملا جو اس فائرنگ میں شہید ہوگئے تھے اور نہ ہی گولی چلانے والوں کو اب تک کوئی سزا نہیں ملی ہے۔
کوثر حیات خان نے یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ 13 اگست 1980 کو مراد آباد عیدگاہ شوٹنگ کے واقعہ کی اعلیٰ سطحی عدالت سے تحقیقات کرائی جائے۔ فائرنگ کے اس واقعہ کے مسلمانوں پر گولیاں چلانے والوں کے خلاف مقدمات درج کرکے کارروائی کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فائرنگ کے واقعے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کو مناسب معاوضہ دیا جائے۔ اور شہید ہونے والے افراد کے لواحقین کو سرکاری نوکریاں دی جائیں۔
مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 13 اگست 1980 کو مراد آباد عیدگاہ میں فائرنگ کے واقعہ میں سینکڑوں معصوم لوگ عیدگاہ میں نماز ادا کرتے ہوئے شہید کردئے گئے تھے جس میں معصوم بچے بھی شہید ہوئے تھے۔ یہ فرقہ وارانہ فساد نہیں بلکہ حملہ تھا۔ پولیس اور انتظامیہ نے مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند جابرانہ تشدد کیا۔
یہ بھی پڑھیں: