بدایوں: بدایوں کی جامع مسجد تنازعہ معاملے کی سماعت 8 اگست 2022 سے چل رہی ہے۔ ہندو مہاسبھا کے صدر مکیش پٹیل نے عدالت میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں جامع مسجد ہے، وہاں پہلے نیل کنٹھ مہادیو کا مندر تھا۔ جس کے ثبوت موجود ہیں۔ آج بھی مورتیاں ہیں، پرانے ستون ہیں، نیچے ایک سرنگ ہے۔ ماضی میں قریب ہی ایک تالاب ہوا کرتا تھا۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ، مسلمان حملہ آوروں نے مندر کو تباہ کر دیا تھا۔ ایک عقیدہ ہے کہ اس مندر کا شیولنگ لا کر تھوڑے ہی فاصلے پر ایک اور مندر میں نصب کیا گیا تھا، جس کی آج بھی پوجا کی جاتی ہے۔ مکیش پٹیل نے دعویٰ کیا ہے کہ قطب الدین ایبک کے دور میں مندر کو گرا کر مسجد بنائی گئی تھی۔ 1875 سے 1978 تک کے گزٹوں میں اس کا ثبوت موجود ہے۔ جس میں لکھا ہے کہ مندر کو گرا کر مسجد بنائی گئی۔
اس سے قبل سماعت میں حکومت کا موقف پیش کیا گیا تھا۔ محکمہ آثار قدیمہ نے اسے قومی ورثہ قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا کہ سرکاری جگہ قومی ورثے سے 200 میٹر کے فاصلے پر ہے۔ عدالتی انتظامی کمیٹی، یوپی سینٹر سنی وقف بورڈ، حکومت ہند، چیف سکریٹری یوپی، محکمہ آثار قدیمہ اور ڈی ایم بدایوں کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا گیا ہے۔ اس کے بعد وقف بورڈ اور انتظامی کمیٹی کی طرف سے بحث چل رہی ہے۔ اب اس معاملے کی سماعت آج ہونی ہے۔ اسد الدین اویسی نے ہفتہ کو ٹویٹ کرکے اس معاملے کو گرمایا تھا۔
جامع مسجد کا مقدمہ لڑنے والے ایڈووکیٹ اسرار احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ 850 سال پرانی جامع مسجد ہے۔ یہاں کبھی مندر نہیں تھا۔ ہندو مہاسبھا کو مندر کے لیے دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان کے دعوے کے مطابق مندر کا کوئی وجود نہیں ہے، جس چیز کا کوئی وجود نہیں اس کی طرف سے کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ دعویٰ مسترد ہونے پر عدالت میں بحث جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ہم پرانے ریکارڈ کو دیکھیں تو بھی جامع مسجد یہاں سرکاری ریکارڈ میں درج ہے۔
جامع مسجد شمسی کے اردگرد موجود مسلم کمیونٹی کے لوگوں کا خیال ہے کہ غلام خاندان کے حکمران شمس الدین التمش نے 1223ء میں اپنی بیٹی رضیہ سلطان کی پیدائش پر یہ مسجد تعمیر کروائی تھی۔ رضیہ سلطان پہلی مسلم حکمران بنی۔ شمس الدین صوفی نظریہ کے مضبوط پرچارک تھے۔ جب وہ بدایوں آئے تو یہاں کوئی مسجد نہیں تھی۔ اسی وجہ سے انھوں نے یہ مسجد تعمیر کرائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: