گیا: کبوتر پالنے کی صدیوں پرانی روایت ہے، تاہم روز مره کی بھاگ دوڑ اور مشغولیت کے ساتھ جگہ کی کمی کے سبب یہ روایت محدود ہوگئی ہے، لیکن مصروف ترین زندگی میں آج بھی چند خاندان ایسے ہیں جن میں کبوتر پالنے کی روایت اور شوق نسل در نسل منتقل ہو کر آباد ہے۔ کبوتر پالنا ان کا عشق ہے۔
ایسا ہی ایک شیدائی گیا شہر کا ایک طالب علم مدثر قریشی ہے۔ کبوتر پالنا ناصرف اس کا عشق ہے بلکہ اب تو وہ کبوتر بازی 'پرواز ریس' میں بھی مہارت رکھتا ہے۔ ضلع اور ریاستی سطح کے کبوتر بازی مقابلے میں اُس نے کئی بار انعام اپنے نام کیا ہے۔ کبوتر پالنے کا یہ شوق اسے والد سے وراثت میں ملا ہے۔ اس کے پاس 100 جوڑوں سے زیادہ دیسی اور مختلف ممالک کے اعلی نسلوں کےمہنگے کبوتر ہیں، جن میں اس کے پاس سب سے مہنگے پاکستانی اور نیپالی کبوتر جوڑے ہیں۔
مدثر قریشی بی اے تیسرے سال کا طالب علم ہے۔ پڑھائی کے بعد وہ اپنا پورا وقت کبوتروں کی دیکھ بھال میں گزارتا ہے۔ شہر گیا کے نادرہ گنج محلے کی تنگ گلیوں میں واقع اپنے مکان کی اوپری منزل پر کبوتروں کا گھر بنوا رکھا ہے۔ اپنے جیب خرچ سے کبوتروں کے دانے پانی کا انتظام کرتا ہے۔ کبوتروں پر روزانہ وہ سو روپے سے زیادہ رقم خرچ کرتا ہے۔ کبوتر بھی اس سے مانوس ہیں۔
قریشی کے پاس کچھ کبوتر تو ایسے ہیں جو اسکی آواز سنتے ہی اپنے پنکھ پھیلانے لگتے ہیں اور اس کی سیٹی پر کچھ حد کی پرواز کر واپس اپنے کھونسلے میں آ جاتے ہیں۔ قریشی کا کہنا ہے کہ کبوتر پالنا میرا عشق ہے اور یہ اسے وراثت میں ملی ہے۔ بچپن سے کبوتروں کی 'گٹر گوں' کی آواز دل کو چھوتی ہے چونکہ کبوتر اس نے بچپن سے اپنے گھر پر دیکھا ہے، تو اس کے پالنے اور دیکھ بھال کی باریکیوں سے واقف ہے۔ پہلے کی بنسبت اس نے کبوتروں کی تعداد بڑھا دی ہے اور وہ گزشتہ 8 برسوں سے کبوتر پالنے میں مصروف ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران مدثر قریشی نے اپنے تاثرات میں کہا کہ پہلے سے اس کے والد اور بھائیوں کو کبوتر پالنے کا شوق تھا تاہم کام کاج کی مصروفیت کی بنا پر وہ اس شوق سے دور ہوتے چلے گئے اور اس وجہ سے آہستہ آہستہ کبوتر اس کے گھر سے دور ہوگئے۔ لیکن بعد میں جب اس نے کبوتر پالنا شروع کیا تو والد اور بھائیوں کا تعاون ملنے لگا۔
اس کے ایک بھائی 'کلام قریشی' نادرہ گنج وارڈ سے میونسپل کارپوریشن کے وارڈ کونسلر ہیں۔ مدثر قریشی نے کہا کہ اس کے بھائی ہمیشہ اس کے اس شوق کی قدر کرتے ہیں اور اسے اعلی اور قیمتی نسلوں کے کبوتروں کو منگوا کر بطور تحفہ بھی دیتے ہیں۔ کبوتر پالنا نا تو اس کی تجارت ہے اور نا ہی اس سے کوئی منافع حاصل ہوتا ہے لیکن پالنے کے شوق کی حد کو وہ پورا کرنے کے لیے ہرممکن کوشش میں لگا ہوتا ہے۔
کبوتر پرواز مقابلے کا ہے ماہر
مدثر قریشی کا پڑھائی کے علاوہ مشغلہ کبوتر پالنا ہے، کبوتر پرواز کے مقابلے کا بھی وہ اب ماہر ہوگیا ہے۔ ریاست و ضلع سطح کے کبوتر پرواز مقابلے میں حصہ لے چکا ہے۔ 2021 میں وہ ریاستی سطح کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کر انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔ گزشتہ برس 2023 کے ضلعی سطح کے مقابلے میں وہ سیکنڈ پوزیشن پر رہا اور اسے ٹورنامنٹ کمیٹی کی طرف سے سابق ریاستی وزیر و گیا نگر کے بی جے پی ایم ایل اے ڈاکٹر پریم کمار کے ہاتھوں 5100 روپیے اور توصیفی سند سے بھی نوازا گیا۔ 2024 کے ریاستی سطح کے مقابلے میں بھی اس کا انتخاب ہوا ہے، گیا ضلع میں 7 سے 8 ہی ایسے نوجوان ہیں جو کبوتر بازی کی مہارت رکھتے ہیں، جس میں ایک بڑا نام مدثر قریشی کا بھی ہے۔
دیسی کبوتر ہی پرواز مقابلے میں ہوتے ہیں شامل
مدثر قریشی نے بتایا کہ کبوتر پرواز مقابلے میں دیسی کبوتروں کو شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے ایک ٹیم سے 11 کبوتر ہوتے ہیں۔ کمیٹی کے افراد اور امپائر پہلے کبوتروں کی جانچ کرتے ہیں، انکی پہچان کے لیے خاص نشان زد کیا جاتا ہے۔ کبوتروں کی پہچان سے مراد یہ کہ کبوتروں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ کبوتر ہیں کی نہیں، جنکو اڑانے پر پابندی نہیں ہے۔ اس مقام پر امپائر اس وقت تک ہوتے ہیں جب تک سبھی کبوتر واپس اپنے گھونسلے میں نا آجائیں۔ جن کے کبوتر سب سے آخر میں پرواز مکمل کر واپس آتے ہیں انہیں پہلی پوزیشن دی جاتی ہے۔
کئی نسلوں کے ہیں کبوتر
قریشی کے پاس کئی نسلوں کے کبوتر ہیں، جن میں بنارسی گولڈن، دیسی، کمگر، کاغذی، جاگ، امریکن، پاکستانی برڈ، ٹیڈی اور گولڈن، نیپالی برڈ سمیت کئی اور قسم کے کبوتر ہیں۔ امریکن، پاکستانی اور نیپالی برڈ کے کبوتر گیا میں کچھ لوگوں کے پاس ہی ہیں۔ نیپال کے دو عدد کبوتر کے بچے کی قیمت قریب 20 ہزار روپے ہے جوکہ اس کے پاس یہ کبوتر موجود ہیں۔