ممبئی: وشال گڑھ قلعہ کے آس پاس اور یہاں تک کہ قلعہ سے 3 کلومیٹر سے زیادہ دور واقع غازہ پور گاؤں میں تقریباً 60-70 ڈھانچوں کو گرا دیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوگئی۔ اس خطے میں 14 جولائی کو اقلیتی اور اکثریتی برادریوں کے درمیان کشیدگی بھڑک اٹھی اور اگلے ہی دن ریاستی محکمہ تعمرات عامہ ( پی ڈبلیو ڈی) نے انہدامی کارروائی شروع کی۔
وشال گڑھ قلعہ کے علاقے کے تین مقامی لوگ ایوب یو کاغذی، عبدالسلام کے ملنگ اور مراد محلدار نے پولیس کی خاموشی اور پی ڈبلیو ڈی کی مسماری پر الگ الگ درخواستیں دائر کیں جن کی طرف سے ایڈووکیٹ ستیش تلیکر نے عدالت میں بحث کی۔
ایڈووکیٹ ستیش تلیکر نے جھڑپوں کے بارے میں عدالت کو بتایا اور اسی کے ساتھ یہ بھی نشاندہی کی کہکس طرح پریشان کن ماحول میں بلڈوزر مہم کے ذریعے مکانات، دکانوں اور دیگر ڈھانچوں کو منہدم کر دیا گیا، کس طرح دائیں بازو کے 'بیرونی لوگوں کے ایک بڑے ہجوم نے مقامی لوگوں پر حملہ کیا، کس طرح ایک مقامی مسجد پر چڑھ کر اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی اور زبردست کشیدگی پھیلائی گئی۔انہوں نے بتایا کہ ہاں موجود پولیس فورس تشدد کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی تھیں۔
کچھ ویڈیوز دیکھنے کے بعد ججوں نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ 'تشدد پر کیا کارروائی کی گئی، وہاں کیا ہو رہا تھا اور وہ لوگ کون تھے جنہیں عرضی گزاروں نے 'شیو بھکت' کہا تھا۔''
ججوں نے کہا کہ اگرچہ ویڈیوز میں نظر آنے والے افراد سرکاری اہلکار نہیں تھے، لیکن امن و امان برقرار رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے، اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کوئی ایف آئی آر درج کی گئی ہے یا نہیں۔
مزید پڑھیں: ہم مہاراشٹر میں اتحاد اور اعتماد کے ساتھ عوام کو بیدار کرنے آئے ہیں، سناتن پانڈے
عدالت نے وشال گڑھ قلعہ کے دائرہ اختیار میں واقع شاہ وادی پولیس اسٹیشن کے سینئر انسپکٹر کو بھی ہدایت دی کہ وہ "29 جولائی کو ذاتی طور پر عدالت میں حاضر رہیں، پوری صورتحال اور تشدد میں ملوث افراد کے خلاف کی گئی کارروائی کی وضاحت کریں۔
ریاستی حکومت کے چیف پلیڈر پریہ بھوشن کاکڑے نے دلیل دی کہ اہلکار صرف تجارتی ڈھانچے کو گرا رہے ہیں جنہیں عدالتوں نے کوئی تحفظ نہیں دیا، لیکن ججوں نے حکام کو عدالت کے اگلے حکم تک کسی بھی ڈھانچے کو منہدم کرنے سے روک دیا۔