بنگلور: نابینا خاتون سمیہ خان اپنی ابتدائی تعلیم ہی سے لیکر پوسٹ گریجویشن تک ٹاپر رہیں اور حتی کہ انہوں نے سویل سرویسز کا مینز امتحان بھی لکھا لیکن ناکام رہیں۔ سمیہ خان نے ایک خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ ان کی تعلیمی زندگی میں کوئی خاص چیلنجز نہ رہے کہ انہیں اپنے گھر میں ان کے والدین کی جانب سے نہایت عمدہ ماحول دیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ چند مادی اشیاء کی دستیابی نہ ہونا ہی دشواریاں رہیں، جیسے ان کے پڑھنے لائق کتابوں کا نہ ہونا وغیرہ۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بس چھوٹی سی دشواریاں رہیں، جنہیں انہوں نے لگن و محنت کے ذریعہ دور کیا اور کامیابی کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی۔
یہ بھی پڑھیں:
نابینا بچوں کا مدرسہ نور: بنگلور میں نابینا بچوں کی ہورہی زندگیاں روشن
سمیہ خان نے بتایا کہ پڑھنا اور لکھنا ان کا شوخ رہا ہے، لہٰذا ریسرچ ان کی خواہش رہی، لہٰذا انہوں نے فارین پالیسی و انٹرنیشنل ریلیشنز پر خاص توجہ دی تھی اور ریسرچ کے ساتھ انہوں نے انالیسس بھی کی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ساتھی پروفیسر حضرات کی مدد سے اپنی ریسرچ مکمل کیا کرتی تھیں۔ سمیہ نے بتایا کہ بجیٹنگ پالیسی نامی کینیڈا کے ایک پروجیکٹ پر انہوں نے کام کیا اور وہ اب فی الحال کرناٹک ہیلتھ پروجیکٹ میں روزگار عنوان پر وہ کام کر رہی ہیں۔ سمیہ نے بتایا کہ انہوں نے 2 سے 3 مرتبہ یو پی ایس سی سول سرویسز امتحان میں اپنی قسمت آزمائی، لیکن اس امتحان کے انہیں نہایت مشکل پایا، لہٰذا پھر اسے ترک کر دیا اور دوسرا کام کرنا شروع کر دیا۔
سمیہ خان کہتی ہیں کہ نابینا بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں مسلم کمیونٹی کی جانب سے اداروں کا بڑا فقدان ہے، جب کہ مسیحی کمیونٹی ان خدمات میں آگے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملت کے اس طرح کے ادارے ہوتے جہاں مسلم نابینا بچے و بچیاں عمدہ تعلیم و تربیت حاصل کرتے، لیکن جو کام ملت اسلامیہ کو کرنا چاہیے وہ مسیحی کمیونٹی نہایت جذبہ کے ساتھ کر رہی ہے۔ سمیہ خان نے بتایا کہ آگے چل کر انہیں پی ایچھ ڈی کرنی ہے اور لاء کرنا ہے۔ جو کہ ان کا خواب بھی ہے۔ سمیہ خان شہر بنگلور میں واقع مدرسہ نور فار دا بلائنڈ میں زیر تربیت نابینا بچوں کی رہنمائی کر رہی ہیں۔ سمیہ خان نے بتایا کہ کوئی بھی نابینا افراد کو دیکھ کر ان پر ترس نہ کریں بلکہ انہیں قبول کریں۔