گیا: بہار بی جے پی کے میڈیا انچارج دانش اقبال کا کہنا ہے کہ ملک کے 85 فیصد مسلمان مقامی ہیں۔ باقی 15 فیصد مسلمان باہر کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پندرہ فیصد وہی ہیں جنہوں نے اس ملک میں شروع سے اب تک ملک کے لیے الگ نظریہ رکھا ہے۔ لیکن آنے والے وقت میں تبدیلی نظر آنے والی ہے۔ انہوں نے بی جے پی میں مسلم ووٹ فیصد کا نمایاں اضافہ ہونے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ آنے والے انتخابات میں اس کا واضح اثر ہوگاکیونکہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں پسماندہ مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کے لیے کام ہوئے ہیں۔ دانش اقبال نے مزید کہا کہ 15 فیصد مسلمان جو باہر کے ہیں ان میں اب بھی زیادہ تر اپنے ناموں کے آگے بخاری، اویسی وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے ہر اہم موقع پر ایک الگ نریٹیو سیٹ کر ملک کے دوسرے مسلمانوں پر حکومت کی ہے۔ پسماندہ مسلمان 85 فیصد ہیں، ان کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پسماندہ مسلمانوں کے مفاد میں زمہ داری سے کام کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں آنے والے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے حق میں ووٹنگ فیصد میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔دراصل دانش اقبال گیا میں بی جے پی کارکنوں کے ساتھ میٹنگ کرنے آئے تھے۔ یہاں اُن سے ای ٹی وی بھارت اُردو نے خصوصی گفتگو کی جس میں انہوں نے کہا کہ بی جے پی وزیراعظم نریندر مودی کے ذریعہ کیے گئے کاموں کو آئندہ لوک سبھا انتخابات سے قبل پارٹی مہم کے توسط سے عام لوگوں کو تفصیلی جانکاری دے گی۔
طلاق ثلاثہ اور 370 سے تھا نقصان
دانش اقبال نے کہا کہ جن مسائل کو ختم کرنے کا وعدہ وزیراعظم یا بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں کیا تھا یا پھر جن جن مسائل پر وزیر اعظم ایڈریس کرتے ہیں وہ سبھی حل ہوئے اور ختم ہورہے ہیں۔ خواہ وہ تین طلاق ، آرٹیکل 370 کیوں نا ہو۔ ان سے براہ راست جو اس ملک کا 85 فیصد پسماندہ مسلمان ہے وہ متاثر تھا تاہم اس میں بدلاو ہوا ہے۔ جموں کشمیر کے اندر جو پسماندہ مسلمان تھے ان کو 370 ہٹنے کے بعد ریزرویشن کا فائدہ ملاہے۔ انہوں نے اس دوران مسلم پرسنل لاء بورڈ پر بھی تبصرہ کیا اور کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے تین طلاق کو ایک غلط فعل تسلیم کیا لیکن اس نے پہلے اسکو ختم کرنے کی پہل نہیں کی۔ حالت یہ کہ برائی تسلیم کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کے سماجی مسائل کو نام نہاد سیکولر جماعتوں کے دباو اور سیاسی مفاد کے لیے اسکو ختم نہیں کرتے ہیں۔
ملک اور بہار میں پاکستانی حمایتی ہیں
دانش اقبال بی جے پی اور آرایس ایس کے رنگ میں بولتے ہوئے کہا کہ ملک اور بہار میں کچھ حصہ اور پاکٹ ہے جو پاکستان حمایتی اور جناح کے نظریہ کا حامی ہے۔ جو ترقی کی راہ میں روکاوٹ پیدا کرتاہے۔ بی جے پی ترقی کی بات کرتی ہے تو وہ انہیں ہضم نہیں ہوتا۔ انہوں نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اویسی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ وہی علاقے منتخب کرتے ہیں جہاں جناح کے نظریہ سے لوگ متاثر ہیں۔ بہار میں اب ایسا ہونے نہیں دیا جائے گا اور این ڈی اے کی حکومت ایسے نظریات والوں پر کارروائی کرے گی۔
لالو نے شہاب الدین کے کنبہ کو چھوڑدیا
دانش اقبال نے دوران گفتگو بہار کی ایک بڑی پارٹی آرجے ڈی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کا مسلمانوں سے محبت اپنا مفاد ہے۔ جنگل راج قائم کر حکومت میں رہنا تھا تو لالو یادو نے بہار کے شہاب الدین کو غنڈہ بنایا اور ان کا استعمال کیا لیکن جب ان کی موت ہوگئی تو ان کے کنبہ کو یوں ہی چھوڑ دیا۔ ایسی محبت کا کیا فائدہ کہ آپ کو وہ برباد کردیں اور جب آپ کو ساتھ کی ضرورت ہوتو وہ اپنے وعدے پورے نہیں کریں۔ مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ صرف اقربا پروری کے لیے آپ کا استعمال کرتے ہیں۔
غیر قانونی اور تجاوزات پر ہوگی کارروائی
ملک میں مساجد اور مدراس پر بی جے پی اور اسکے حمایتیوں کے ذریعے مسلسل حملے اور تنازع کے معاملے پر دانش اقبال نے کہا کہ جو غیر قانونی اور تجاوزات کی جگہیں ہیں وہاں پر حکومت کی کارروائی ہوگی۔ اتر پردیش میں سینکڑوں مدارس تھے جو کاغذ پر تھے۔ سرکار کے پیسے لیکر چند لوگ ہضم کرجاتے تھے اس پر اگر روک لگی تو اس میں برائی کیاہے۔ وہی پیسے غریبوں کی فلاح کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ جہاں تک کچھ جگہوں پر واقع دو مذہبی مقامات ہونے کے دعوے ہیں تو وہ عدالت میں زیر سماعت ہیں جو فیصلہ ہوگا وہ قابل قبول ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ویسے مسلمانوں کو ہندوں کی جگہیں دے دینی چاہیے۔
سی اے اے ہوگا نافذ
دانش اقبال نے کہا کہ سی اے اے نافذ ہوگا لیکن اس سے مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اپوزیشن کی پارٹیاں صرف مسلمانوں کو گمراہ کررہی ہیں۔ مسلمانوں کو ان کے بہکاوے میں نہیں آنا چاہیے۔ تین طلاق کے معاملے میں بھی گمراہ کیا لیکن اس کا اثر کیا ہوا یہ سبھی کو معلوم ہے۔ سی اے اے یا این آرسی ہو اس سے مسلمانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو دوسرے ملکوں سے غیرقانونی طریقوں سے آئے ہیں ان کی پہچان ہوگی۔ ہمارا ملک کوئی دھرم شالہ نہیں ہے کہ سب یہاں جیسےچاہیں آکر بس جائیں اسلیے این آرسی ہونی چاہیے۔