ETV Bharat / state

اکولہ میں مسلم طالب علم کی خودکشی معاملہ میں پولیس کی سخت کارروائی کی یقین دہانی - muslim student suicide in Akola

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 27, 2024, 2:37 PM IST

Updated : Mar 27, 2024, 10:43 PM IST

Akola Muslim Student Suicide Case: اکولہ میں مسلم طالب علم کی خودکشی معاملہ میں پولیس نے سخت کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دراصل ریاست مہاراشٹرا کے ضلع اکولہ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے انسانیت کے ساتھ ساتھ ملک ہندوستان کو بھی شرمسار کردیا ہے اور اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ ملک عزیز میں نفرت اور تعصب پرستی کس تیزی سے پھیل رہی ہے۔ دراصل اکولہ کے گرو نانک ودیالیہ نامی ایک اسکول میں مسلمان ہونے کا طعنہ دے کر جسمانی وذہنی اذیت دیے جانے سے دل برداشتہ طالب علم نے خودکشی کرلی۔

Assurance of strict police action in Akola Muslim student suicide case
Assurance of strict police action in Akola Muslim student suicide case
اکولہ میں مسلم طالب علم کی خودکشی معاملہ میں پولیس کی سخت کارروائی کی یقین دہانی

اکولہ، ممبئی: مہاراشٹرا کے اکولہ شہر میں مسلمان ہونے کا طعنہ دے کر جسمانی و ذہنی اذیت دیے جانے سے دل برداشتہ طالب علم کی جانب سے خودکشی کا واقعہ پیش آیا۔ دراصل " تم مسلمان حرام خور ہو اور مسلمانوں کے بچے ہمارے اسکول میں نہیں ہونے چاہئیں۔ " یہ بات مہاراشٹر کے اکولہ ضلع کے سندھی کیمپ علاقہ میں واقع گرو نانک ودیالیہ کے نویں جماعت میں پڑھنے والے 15 برس کے طالب علم التمش بیگ کو کہی گئیں۔ طعنہ، طنز، تنقید اور نفرت کے اس کاکٹیل کے سبب التمش بیگ نے خودکشی کر لی۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ اُنہوں نے پولیس تھانے میں اس کی شکایت کرنی چاہی لیکن اس کے لیے اُنہیں ناکوں چنے چبانے پڑے۔ پولیس نے اس معاملہ میں 14 دنوں کے بعد اسکول کی پرنسپل سمیت کل 5 ملزمین کے خلاف سنگین دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔

21081037

یہ بھی پڑھیں:

اکولہ: مسلم ہونے کی وجہ سے تشدد کے شکار طالب علم کی خودکشی، 14 دن بعد مقدمہ درج - muslim student suicide

ایف آئی آر میں درج تفصیلات کے مطابق پرنسپل سمیت دو اساتذہ اور ایک طالبہ کے والدین کی جانب سے التمش بیگ کے ساتھ نہ صرف مارپیٹ کی گئی بلکہ اسے مسلمان ہونےکا طعنہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ " تم مسلمان حرام خور ہو۔ اور مسلمانوں کے بچے ہمارے اسکول میں نہیں ہونے چاہئیں۔" 9 مارچ کو اکولہ کے التمش کے والد نے اکولہ کے کھدان تھانہ میں شکایت درج کرائی تھی، شکایت درج کیے جانے کے 14 دن بعد 22 مارچ کو گرو نانک ودیالیہ کے استاد سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف آئی آر کے مطابق التمش کے والد عمران بیگ نے کہا کہ اُنہیں اسکول سے فون آیا جس میں اُن کے بیٹے پر کسی لڑکی کو چھیڑنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ جس کے بعد اُنہوں نے اس لڑکی سے بھی پوچھ تاچھ کی جس پر اس لڑکی نے التمش کے ذریعہ کسی بھی چھیڑ خانی سے صاف انکار کیا۔

پولیس نے اس معاملہ میں سخت کارروائی کی بات کہی ہے۔ التمش بیگ کے والد عمران بیگ افسر بیگ کی جانب سے ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ "مجھے اسی اسکول کی 7ویں جماعت میں پڑھنے والی ایک لڑکی اکشرا سوروڑکر کے والد کا موبائل پر فون آیا کہ اسکول میں آؤ تمھارے لڑکے نے ہماری لڑکی کو چھیڑا ہے۔ جب میں اسکول پہونچا تو پرنسپل نے مجھے بتایا کہ تمھارے لڑکے نے ایک لڑکی کو اشارہ کیا ہے۔اس وقت مجھے میرے لڑکے نے بتایا کہ اسے ان پانچوں نے مارا پیٹا ہے اور دھمکیاں دی اور کہا کہ تم مسلمان حرام خور ہو اور مسلمانوں کے بچے ہمارے اسکول میں نہیں ہونے چاہئیں، تجھے اسکول سے نکال دیں گے۔ فیل کر دیں گے۔ پولیس میں دے دیں گے۔ جس سے میرا لڑکا گھبرا گیا اور خوف زدہ ہو گیا۔ اور گھر آکر انتہائی اقدام کرتے ہوئے خودکشی کرلی۔

عمران بیگ نے اس معاملہ میں مزید کہا کہ جب میں نے اس وقت وہاں موجود لڑکی اکشرا سوروڑکر سے پوچھا کہ کیا التمش بیگ نے تمھیں اشارہ کیا ہے تو اس نے کہا کہ نہیں۔ اس نے مجھے کوئی اشارہ نہیں کیا۔ اس وقت پرنسپل نے کہا کہ میں تجھے نہیں چھوڑوں گی، تیرا مستقبل خراب کروں گی اس طرح دھمکی دی۔ جس کے بعد ہمیں جانے کے لیے کہا گیا۔" اس ضمن میں اکولہ کے ایڈووکیٹ نجیب شیخ نے بتایا کہ التمش خودکشی کیس میں سیاسی اثر ورسوخ اور دباؤ کے ذریعہ سے اس معاملہ پر پردہ ڈالنے اور ملزموں کو بچانے کی کوشش کی گئی اور پولیس پر دباؤ بناکر آیف آئی درج کرنے سے روکا گیا۔ تاہم التمش بیگ کے اہل خانہ اور اکولہ شہر میں عوامی احتجاج کے بعد اور اس علاقہ کے رفیق صدیقی اور فیاض خان وغیرہ کی کوششوں نیز ایڈووکیٹ نجیب شیخ کی قانونی پیروی کے پیش نظر التمش کی خودکشی کے ملزمان کی کوئی پریشر تکنیک کام نہ آئی۔ اور اس معاملہ میں آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایڈووکیٹ نجیب شیخ نے مزید بتایا کہ ایف آئی آر کے درج ہوتے ہی تمام ملزمین غائب ہو گئے ہیں، اس ضمن میں کھدان پولیس اسٹیشن کے تھانیدار دھننجے سائرے نے کہا کہ ملزموں کو جلد گرفتار کرکے مزید کارروائی کی جائے گی۔ ایڈووکیٹ نجیب شیخ نے کہا ہے کہ ہم محکمۂ تعلیم سے گرو نانک ودیالیہ کی منظوری منسوخ کرکے اسے بند کرنے کی اپیل کریں گے۔ کیوں کہ اس اسکول کی انتظامیہ منصوبہ بند طریقوں اور بہانوں سے مسلم بچوں کو اس اسکول سے نکال رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلم بچے ان کے اسکول میں پڑھنے کے لیے نہ آئیں۔ اس سے قبل بھی اسی اسکول کی ایک نیوز ٹی پر آئی تھی کہ پانچویں جماعت کے مسلم بچوں کو اسکول کے باہر کر دیا گیا تھا اور انھیں داخلہ سرٹیفکیٹ لے کر دوسرے اسکول میں جانے کا کہا گیا تھا۔ اسی ضمن میں 8 اگست 2022 کو ایک تحریری شکایت بھی اس سے قبل محکمۂ تعلیمات کو دی جا چکی ہے۔

اکولہ میں مسلم طالب علم کی خودکشی معاملہ میں پولیس کی سخت کارروائی کی یقین دہانی

اکولہ، ممبئی: مہاراشٹرا کے اکولہ شہر میں مسلمان ہونے کا طعنہ دے کر جسمانی و ذہنی اذیت دیے جانے سے دل برداشتہ طالب علم کی جانب سے خودکشی کا واقعہ پیش آیا۔ دراصل " تم مسلمان حرام خور ہو اور مسلمانوں کے بچے ہمارے اسکول میں نہیں ہونے چاہئیں۔ " یہ بات مہاراشٹر کے اکولہ ضلع کے سندھی کیمپ علاقہ میں واقع گرو نانک ودیالیہ کے نویں جماعت میں پڑھنے والے 15 برس کے طالب علم التمش بیگ کو کہی گئیں۔ طعنہ، طنز، تنقید اور نفرت کے اس کاکٹیل کے سبب التمش بیگ نے خودکشی کر لی۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ اُنہوں نے پولیس تھانے میں اس کی شکایت کرنی چاہی لیکن اس کے لیے اُنہیں ناکوں چنے چبانے پڑے۔ پولیس نے اس معاملہ میں 14 دنوں کے بعد اسکول کی پرنسپل سمیت کل 5 ملزمین کے خلاف سنگین دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔

21081037

یہ بھی پڑھیں:

اکولہ: مسلم ہونے کی وجہ سے تشدد کے شکار طالب علم کی خودکشی، 14 دن بعد مقدمہ درج - muslim student suicide

ایف آئی آر میں درج تفصیلات کے مطابق پرنسپل سمیت دو اساتذہ اور ایک طالبہ کے والدین کی جانب سے التمش بیگ کے ساتھ نہ صرف مارپیٹ کی گئی بلکہ اسے مسلمان ہونےکا طعنہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ " تم مسلمان حرام خور ہو۔ اور مسلمانوں کے بچے ہمارے اسکول میں نہیں ہونے چاہئیں۔" 9 مارچ کو اکولہ کے التمش کے والد نے اکولہ کے کھدان تھانہ میں شکایت درج کرائی تھی، شکایت درج کیے جانے کے 14 دن بعد 22 مارچ کو گرو نانک ودیالیہ کے استاد سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف آئی آر کے مطابق التمش کے والد عمران بیگ نے کہا کہ اُنہیں اسکول سے فون آیا جس میں اُن کے بیٹے پر کسی لڑکی کو چھیڑنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ جس کے بعد اُنہوں نے اس لڑکی سے بھی پوچھ تاچھ کی جس پر اس لڑکی نے التمش کے ذریعہ کسی بھی چھیڑ خانی سے صاف انکار کیا۔

پولیس نے اس معاملہ میں سخت کارروائی کی بات کہی ہے۔ التمش بیگ کے والد عمران بیگ افسر بیگ کی جانب سے ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ "مجھے اسی اسکول کی 7ویں جماعت میں پڑھنے والی ایک لڑکی اکشرا سوروڑکر کے والد کا موبائل پر فون آیا کہ اسکول میں آؤ تمھارے لڑکے نے ہماری لڑکی کو چھیڑا ہے۔ جب میں اسکول پہونچا تو پرنسپل نے مجھے بتایا کہ تمھارے لڑکے نے ایک لڑکی کو اشارہ کیا ہے۔اس وقت مجھے میرے لڑکے نے بتایا کہ اسے ان پانچوں نے مارا پیٹا ہے اور دھمکیاں دی اور کہا کہ تم مسلمان حرام خور ہو اور مسلمانوں کے بچے ہمارے اسکول میں نہیں ہونے چاہئیں، تجھے اسکول سے نکال دیں گے۔ فیل کر دیں گے۔ پولیس میں دے دیں گے۔ جس سے میرا لڑکا گھبرا گیا اور خوف زدہ ہو گیا۔ اور گھر آکر انتہائی اقدام کرتے ہوئے خودکشی کرلی۔

عمران بیگ نے اس معاملہ میں مزید کہا کہ جب میں نے اس وقت وہاں موجود لڑکی اکشرا سوروڑکر سے پوچھا کہ کیا التمش بیگ نے تمھیں اشارہ کیا ہے تو اس نے کہا کہ نہیں۔ اس نے مجھے کوئی اشارہ نہیں کیا۔ اس وقت پرنسپل نے کہا کہ میں تجھے نہیں چھوڑوں گی، تیرا مستقبل خراب کروں گی اس طرح دھمکی دی۔ جس کے بعد ہمیں جانے کے لیے کہا گیا۔" اس ضمن میں اکولہ کے ایڈووکیٹ نجیب شیخ نے بتایا کہ التمش خودکشی کیس میں سیاسی اثر ورسوخ اور دباؤ کے ذریعہ سے اس معاملہ پر پردہ ڈالنے اور ملزموں کو بچانے کی کوشش کی گئی اور پولیس پر دباؤ بناکر آیف آئی درج کرنے سے روکا گیا۔ تاہم التمش بیگ کے اہل خانہ اور اکولہ شہر میں عوامی احتجاج کے بعد اور اس علاقہ کے رفیق صدیقی اور فیاض خان وغیرہ کی کوششوں نیز ایڈووکیٹ نجیب شیخ کی قانونی پیروی کے پیش نظر التمش کی خودکشی کے ملزمان کی کوئی پریشر تکنیک کام نہ آئی۔ اور اس معاملہ میں آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایڈووکیٹ نجیب شیخ نے مزید بتایا کہ ایف آئی آر کے درج ہوتے ہی تمام ملزمین غائب ہو گئے ہیں، اس ضمن میں کھدان پولیس اسٹیشن کے تھانیدار دھننجے سائرے نے کہا کہ ملزموں کو جلد گرفتار کرکے مزید کارروائی کی جائے گی۔ ایڈووکیٹ نجیب شیخ نے کہا ہے کہ ہم محکمۂ تعلیم سے گرو نانک ودیالیہ کی منظوری منسوخ کرکے اسے بند کرنے کی اپیل کریں گے۔ کیوں کہ اس اسکول کی انتظامیہ منصوبہ بند طریقوں اور بہانوں سے مسلم بچوں کو اس اسکول سے نکال رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلم بچے ان کے اسکول میں پڑھنے کے لیے نہ آئیں۔ اس سے قبل بھی اسی اسکول کی ایک نیوز ٹی پر آئی تھی کہ پانچویں جماعت کے مسلم بچوں کو اسکول کے باہر کر دیا گیا تھا اور انھیں داخلہ سرٹیفکیٹ لے کر دوسرے اسکول میں جانے کا کہا گیا تھا۔ اسی ضمن میں 8 اگست 2022 کو ایک تحریری شکایت بھی اس سے قبل محکمۂ تعلیمات کو دی جا چکی ہے۔

Last Updated : Mar 27, 2024, 10:43 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.