علیگڑھ: عالمی شہرت یافتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کو یہ فخر اور امتیاز حاصل ہے۔ اس یونیورسٹی نے اب تک تقریبا 100 وائس چانسلرز اور چانسلرز پیدا کئے ہیں۔ یعنی یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلباء اے ایم یو سمیت ہندوستان اور بیرونی ممالک کی یونیورسٹی میں وائس چانسلر اور چانسلر کے عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں۔ یہاں کے وائس چانسلرز کو صدر جمہوریہ اور نائب صدر جمہوریہ بھی بنایا گیا ہے لیکن حامد انصاری کے بعد سے کسی بھی وائس چانسلر کو حکومت نے بڑی ذمہ داری نہیں دی ہے۔ سابق وائس چانسلر طارق منصور کو بی جے پی نے ایم ایل سی ضرور بنایا گیا تھا۔
ماہر سر سید و علیگڑھ ڈاکٹر راحت ابرار نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا اے ایم یو مایہ ناز یونیورسٹی ہے جس نے سو سال میں سو سے زائد وائس چانسلر اور آٹھ چانسلر پیدا کئے ہیں۔ ان میں دو ایسے علیگ ہیں جو تین تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بنے ہیں۔موجودہ اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون سمیت کل 5 خاتون وائس چانسلر بنی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہاں کے طلباء نے ناصرف ہندوستان میں بلکہ پاکستان, بنگلہ دیش اور لندن میں بھی تعلیمی ادارے اور یونیورسٹی قائم کی جہاں کہ وہ وائس چانسلر, چانسلر اور بانی ڈائریکٹر رہے۔
واضح رہے موجودہ اے ایم یو کی 22 وی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے بھی اے ایم یو سے ہی تعلیم حاصل کی تھی۔ یعنی وہ بھی علیگ ہیں اور یہ الگ بات ہے کہ جس پینل سے وہ وائس چانسلر بنی اس پینل تشکیل کے طریقے کار کے خلاف مقدمہ الہ آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔اس کی الگی سماعت 11 جولائی کو ہے سے متعلق کیمپس میں چرچائے 4 جون کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد سے مزید تیز ہو گئی ہیں اور علیگ برادری کی بھی نگاہیں کورٹ پر لگی ہوئی ہے۔
اے ایم یو کے اب تک کے کل 22 وائس چانسلرز میں سے صرف 21 کی تصاویر سر سید ہاوس میں لگی ہوئی ہیں جبکہ یہ تصاویر وائس چانسلر لاج یا دفتر میں لگی ہونی چاہیے کیونکہ سر سید ہاوس میں صرف سر سید کی تصاویر اور ان سے متعلق دستاویزات رکھے ہونا چاہیے۔ سر سید ہاوس میں وائس چانسلر کی تصاویر کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔
سر سید ہال میں سر سید احمد خان کی صرف دو اور وائس چانسلرز کی 22 کی جگہ 21 تصاویر لگی ہوئی ہیں جسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے سر سید ہاوس میں سر سید سے زیادہ وائس چانسلرز کی تصاویر کی اہمیت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اے یم یو میں تدریس کے طریقے اور سماجی و لسانی تنوع کے موضوع پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس
پہلے کے وائس چانسلر کا ایک مشن ہوتا تھا وہ مادر درسگاہ کے فائدے کے لئے اپنا نقصان تک کرنے کو تیار رہتے تھے اور اپنے زاتی مفادات کو بھی ادارے سے دوور رکھتے تھے ۔ایمانداری سے ادارے اور طلباء کے حق میں کام کرتے تھے۔ شاید ایسی لئے پہلے اے ایم یو کے وائس چانسلر کو حکومت صدر جمہوریہ اور نائب صدر جمہوریہ بناتی تھی۔ اور اب ایم ایل سی بنارہی ہے۔ کیا آج وائس چانسلر کا پینل بنانے والوں اور خود وائس چانسلرز کو اس تنزل پر غور نہیں کرنا چاہیے۔