احمدآباد: گجرات کے احمدآباد میں گومتی پور وارڈ کونسلر اقبال شیخ نے ہجومی تشدد کے خلاف پولس کمشنر کو خط لکھ کر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اس مکتوب میں لکھا کہ احمد آباد شہر میں کئی برسوں سے فرقہ وارانہ خیر سگالی کی فضا قائم ہے۔ گزشتہ برسوں سے معاشرہ کے تمام مذہبی تہواروں کو تمام مذاہب کے شہری مل کر مناتے ہیں اور ایک شاندار مثال پیش کرتے ہیں۔ فرقہ وارانہ اتحاد، جس کی وجہ سے احمد آباد شہر کے سرکردہ کاروباری طبقات سمیت تمام چھوٹے اور بڑے تاجر اور عام شہری ترقی کی نئی راہ پر گامزن ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم مودی خلیجی ممالک کے معززین کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کر کے ملک کو فرسٹ کلاس کیٹیگری میں لانے اور تجارت کے نئے افق تلاش کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ لیکن یہ انتہائی قابل مذمت اور افسوسناک ہے کہ کچھ سماج دشمن عناصر شہر کے امن کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو ایسے سماج دشمن عناصر کی وجہ سے شہر کے امن میں خلل پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
حال ہی میں مورخہ 25/3/24 کو دوپہر 12-40 بجے شہر کے واڈج تھانے کی حدود میں چمپانیر سوسائٹی کے قریب ایک سنگین واقعہ پیش آیا۔ جس میں رکشہ چلانے والا جس کا تعلق گومتی پور سے ہے اور اب رامول میں رہتا ہے، جب رکشہ چلانے والا، نواب سلطان عمر 27، مسافر کو اتارنے جا رہا تھا، اچانک 05 سے 7 سماج دشمن عناصر کے ایک گروپ نے رکشہ چلانے والے سے نام پوچھا اور رکشہ چلانے والا مسلمان ہونے کی وجہ سے اسے ڈنڈوں اور پائپوں سے مارنے کی دھمکی دی، وہ اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے فرار ہو گیا اور براہ راست تھانہ وڈوج پہنچ کر پولیس کو اطلاع دی، پولیس جب موقع پر پہنچی تب تک ڈرائیور کا رکشہ مکمل طور پر جل گیا تھا۔ پھر ملزمان نے سیاسی دباؤ ڈالا اور شکایت درج کرنے کے بجائے پولیس نے انہیں تصفیہ کرنے پر مجبور کیا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ اس واقعہ کے ردعمل میں کئی سماجی تنظیموں کے لیڈران پورے احمد آباد شہر میں پھیل گئے اور مجرموں کے خلاف شکایت درج کرانے کے لیے کئی درخواستیں دیں۔ شام 5-00 بجے تک پولس نے کوئی شکایت درج نہیں کی۔ ڈپٹی پولیس کمشنر کو اطلاع دینے پر ترون ڈگل سے فون پر بات ہوئی۔ جس پر ترون ڈگل نے مثبت جواب دیا اور وڈوج پولیس انسپکٹر مسٹر جوشی سے شکایت درج کرنے کو کہا۔ مجرموں نے نشہ کیا تھا اور نواب کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔
ایف آئی آر میں (موب لیچنگ)کی دفعہ 506/2 اور دفعہ 153/A کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ایسا کرکے مجرموں کو پولیس سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ضروری ہے کہ اس کیس کی تفصیلی تحقیقات کی جائے اور دفعہ 506/2 اور 153/A کا اضافہ کیا جائے۔ اور دوپہر سے شام تک مسلسل شکایت کنندہ کو ذہنی اذیت دے کر شکایت درج نہ کرانے والوں کے خلاف تعزیری کارروائی کی جائے۔ جس سے معاشرے میں اس طرح کے جرائم کو ہونے سے روکا جا سکے۔ اس طرح اگر شہر کے امن و امان کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو ایسے مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دینے کی گزارش ہے۔