بنگلور: گزشتہ کئی سالوں سے بھارت میں یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کئے جانے کی باتیں ہورہی ہیں اور آخر کار اسے ریاست اتراکھنڈ میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی جانب سے نافذ کیا گیا ہے۔ ریاست اتراکھنڈ کے بعد اب راجستھان کی بی جے پی حکومت بھی یو سی سی کو نافذ کرنے کی بات کر رہی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ملک بھر کی مختلف ریاستیں، جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے وہاں پر یو سی سی کو نافذ کیا جائے۔
اس سلسلے میں اتراکھنڈ اسمبلی میں پاس کئے گئے یونیفارم سول کوڈ پر مشہور لیگل ایکٹوسٹ و کرناٹک ہائی کورٹ کے وکیل ایڈوکیٹ انور علی نے تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 44 کے مطابق یہ بتایا گیا ہے کہ ملک کی عوام کو سیکیور یا محفوظ کرنے کے لئے یونیفارم سول کوڈ کو لایا جانا ہے، نہ کہ انہیں تکلیف دینے یا ان کے نجی زندگیوں یا ان کے دینی یا مذہبی معاملات میں دخل اندازی کرنے کے لئے۔ جب کہ اتراکھنڈ میں نافذ کیے گئے یو سی سی کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہاں پر نافذ کیے گئے یو سی سی عوام کے مفادات کو سیکیور کرنے کے لئے نہیں بلکہ ان کے مذہبی آزادی کو چھیننے کے لئے بنایا گیا ہے۔
اس سوال پر کہ یو سی سی کے نفاذ کے ساتھ مسلم، مسیحی و دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟ ایڈوکیٹ انور علی نے متعدد مثالیں دیکر بتایا کہ اس سے نہ صرف مسلم بلکہ ہندو سمیت سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو فرق پڑے گا کیونکہ یہ سبھی کے مذہبی آزادی میں مداخلت کرنے والا ہے۔ انور علی نے مزید بتایا کہ یہ یونیفارم سول کوڈ دستور کے آرٹیکلز 21 و 25 پر سیدھا سیدھا حملہ ہے اور یہ یو سی سی براہ راست بھارت کے آئین سے متصادم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اترکھنڈ میں یو سی سی بل پر اسدالدین اویسی کی تنقید، کہا اس سے ہندو کوڈ نافذ ہوگا
ایڈووکیٹ انور علی نے کہا کہ اتراکھنڈ میں لایا گیا یونیفارم سول کوڈ یہ بتا رہا ہے کہ اسے سیاسی ایجنڈے کے تحت لایا گیا ہے۔ جیسے برطانوی پھوٹ دالو حکومت کرو کیا کرتے تھے، اسے بھی اسی طرز پر لایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ یو سی سی نہ صرف آئین کے خلاف ہے بلکہ عین عوام مخالف ہے اور سول سوسائٹی کو چاہیے کہ اس طرح کے قوانین کے خلاف اعلیٰ کورٹس میں چیلنج کریں۔