غازیپور: سابق رکن پارلیمنٹ مختار انصاری باندہ کی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ جن کا 28 مارچ 2024 جمعرات کو ریاستی حکام کے مطابق دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا تھا، پانچ دفعہ رکن اسمبلی منتخب ہونے والے مرحوم مختار انصاری کے خلاف درجنوں مقدمات درج تھے۔ وہ باندہ کی جیل عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ جہاں خود مختار انصاری اور ان کے بیٹے نے عدالت میں عرضی داخل کرکے الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے کھانے میں سلو پوائزن ڈالا جا رہا ہے۔ جس سے مختار انصاری کی طبیعت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ جب کہ جیل حکام نے اس الزامات کی تردید کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بالآخر بےہوشی کی حالت میں انہیں ضلع اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ جہاں ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا، مختار انصاری کی میت کو غازیپور کے محمد آباد واقع ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی جوڈیشل کسٹڈی میں ہوئی موت پر کئی لوگ سوالیہ نشان کھڑا کر رہے ہیں۔ ان تمام موضوعات پر ای ٹی وی بھارت اردو نے مختار انصاری کے چھوٹے بیٹے عمر انصاری سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مختارانصاری کی نمازِ جنازہ میں عوام کا جم غفیر - Mukhtar Ansari Funeral ماہ رمضان میں مسلم رہنماوں کی جوڈیشیل کسٹڈی میں موت یا قتل - Death In Judicial Custody |
ای ٹی وی بھارت اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کے بیٹے عمر انصاری نے کہا کہ اب تو بھارت کا بچہ بچہ اس بات کو جانتا ہے کہ مختار انصاری کے کھانے میں زہر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔ یہ تو سراسر سازش کو ظاہر کرتا ہے۔ اب تو مخفی باتیں بھی کھل کر سامنے آگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے بڑے بھائی عباس انصاری کو سپریم کورٹ نے پیرول پر رہا کیا تھا۔ انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی منشاء کے مطابق کام کیا ہے۔ ان کو گھر لانا تھا مگر ان کو دو دن جیل میں رکھا اور وہیں آکر ملنے کے لیے کہا گیا۔ جب کہ ہم تو ملنے کے لیے کاس گنج جیل بھی جاتے تھے۔ ان تمام معاملات کی جانکاری ایس پی غازیپور کو دی ہے۔
عمر انصاری نے کہا کہ جو لوگ میرے والد کو مافیا کہتے تھے اب ان کی بولتی بند ہوگئی ہے۔ کیونکہ جب ان کا جنازہ جا رہا تھا۔ حد نگاہ تک جو لوگوں کا ہجوم تھا۔ جب کہ انتظامیہ کی طرف سے سختی تھی۔ جونپور، مئو، سلطانپور، بنارس، بہار بند تھا۔ قصبے میں سی آئی ایس ایف لگائی گئی تھی۔ کوئی کچھ بھی کہے۔ ہر ذات و مذہب کے لوگ میرے والد کو مانتے تھے روز ان کی مزار پر سینکڑوں لوگ آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گنتی کے چند ایسے افراد تھے جن کی نظر میں میرے والد مافیا، غنڈہ، راستے کا روڑا تھے۔ کیونکہ وہ غریبوں اور مظلوموں کی آواز تھے۔ انہوں نے ان ہی غریبوں کی لڑائی لڑی۔ آج ان کے انتقال کے بعد آج سوشل میڈیا پر لوگ ان کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ ان کے حق میں پوسٹ کر رہے ہیں۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ لوگوں کی مدد اور ان کی ضروریات کو پورا کرتے تھے۔
عمر انصاری نے کہا کہ میرے اہل خانہ میں کل بارہ افراد مجاہدینِ آزادی گزرے ہیں۔ بریگیڈیئر عثمان کو پاکستان کی فوج کا سب سے بڑا عہدہ دینے کی پیش کش کی گئی تھی۔ مگر انہوں نے کہا کہ میں اسی سرزمین میں پیدا ہوا ہوں۔ اسی ترنگا اور اسی سرزمین کی حفاظت کے لیے شہید ہو جاؤں گا۔ بالآخر ملک کی حفاظت کرتے ہوئے وہ شہید ہو گئے۔ ہم اسی مجاہد خاندان سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے آباؤ اجداد انگریزوں سے لڑتے تھے ہم انگریزوں کے غلاموں سے لڑ رہے ہیں۔