علی پور دوار: مغربی بنگال کے چائے پتی کے باغات والے علاقوں میں تعلیم کا بہت بڑا فقدان ہے۔ یہاں اسکول چھوڑنے والوں کی تعداد بھی حیران کن حد سے زیادہ ہے۔ نتیجتا نسل در نسل پرائمری تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے پسماندہ ہوتی جارہی ہے۔ اس علاقے کی معاشی، جغرافیائی اور سماجی اہمیت کا انحصار چائے کی صنعت پر ہے۔ نتیجتاً جب چائے کے باغات بند ہوتے ہیں تو تعلیم بھی رک جاتی ہے۔ یہیں سے جے برت بھٹاچاریہ نے اندھیرے میں روشنی لانے کا کام شروع کیا۔
بھٹاچاریہ کا کریئر پولیس سروس سے شروع ہوا، جہاں انہوں نے تین سال سب انسپکٹر کے طور پر کام کیا۔ تاہم چائے باغ والوں میں تعلیم کے تئیں بے حسی کا رویہ دیکھ کر انہوں نے یہاں کے بچوں کو تعلیم سے روشناس کروانے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے وہ پولیس کی نوکری چھوڑ کر بچوں کو پڑھانے کے لیے نکل پڑے۔
اس کے بعد تقریبا دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ وہ 22 سال سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات پر انہیں اس سال ایجوکیشن ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
دراصل جے برت کو 1999 میں پولیس میں سب انسپکٹر کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ بچپن سے ہی استاد بننا چاہتے تھے۔ نتیجتاً پولیس کی نوکری کے ساتھ ساتھ وہ استاد بننے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر کرنا نہیں بھولے۔ اپنے خواب کی تعبیر کے لیے اس نے 2002 میں سرکاری امتحان دیا اور پاس کیا۔ یہیں سے جے برت کی تدریسی زندگی کا آغاز ہوا۔
علی پور دوار ضلع کے مداریہٹ بلاک کے بیرپارہ علاقے میں چائے کے بہت سے باغات ہیں۔ وہ ان دور دراز علاقوں میں تعلیم کی روشنی پھیلانے کے لیے پرعزم ہے۔ جب علاقے میں چائے کا باغ بند ہو جاتا ہے تو وہاں کی تعلیم رک جاتی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے یہ اساتذہ طلبہ کو اسکول لا رہے ہیں۔ جے برت بھٹاچاریہ نے کہا میں نے تدریس کو پیشے کے طور پر چنا کیونکہ میں انسانوں اور معاشرے کی تعمیر کرنا چاہتی ہوں... اپنے طلباء کو ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے فخر ہوتا ہے... میرا احترام سب کیلئے ہے۔