ETV Bharat / opinion

کیا ہے فلور ٹیسٹ؟

What is a floor test? راجیہ سبھا کے سابق سکریٹری جنرل اور انڈین ایڈمسٹریٹیو سروس کے سابق افسر وویک کے اگنی ہوتری کا کہنا ہے کہ ماضی کے برعکس پارلیمنٹ یا ریاستی اسمبلیوں کے فرش پر اب یہ طے ہوتا ہے کہ کسی بھی سربراہ حکومت کو منتخب شدہ نمائندوں کا اعتماد حاصل ہے یا نہیں۔ پہلے یہ اختیار گورنر یا صدر کو ہوتا تھا ۔ حالیہ دنوں میں جھارکھنڈ اور بہار میں اسمبلی کے اندر دو وزرائے اعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے اراکین قانون سازیہ کی جانب رجوع کیا۔

کیا ہے فلور ٹیسٹ؟
کیا ہے فلور ٹیسٹ؟
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 13, 2024, 6:19 PM IST

Updated : Feb 13, 2024, 6:35 PM IST

حیدرآباد: ان دنوں فلور ٹیسٹ کے بارے میں کافی باتیں کی جارہی ہیں۔ ریاست جھارکھنڈ میں سربراہ ریاست کی تبدیلی ہوئی لیکن اسی اتحاد نے ایک نئے لیڈر کے تحت اقتدار میں واپسی کی۔ دوسری طرف بہار میں وہی لیڈر دوبارہ اقتدار میں ہے لیکن اب کی بار انکی حمایت کرنے والے لوگ بدل گئے۔ دونوں ہی صورتوں میں لیڈر نئے نظام کے تحت اپنی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

جھارکھنڈ میں، وزیر اعلی، ہیمنت سورین نے 31 جنوری 2024 کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے گرفتار کیے جانے پر استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد حکمراں اتحاد نے چمپائی سورین کو اپنا لیڈر منتخب کیا اور گورنر کو ایک خط پیش کیا جس میں چمپائی کو چیف منسٹر کے طور پر حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا گیا۔ کچھ تعطل کے بعد گورنر نے اپنی منظوری دے دی اور چمپائی کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ اس ڈرامائی پیش رفت کے بعد، 5 فروری 2024 کو نئی چمپائی سورین حکومت نے جھارکھنڈ قانون ساز اسمبلی کے فلور پر 47 کے مقابلے 29 ووٹوں سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ ووٹنگ سے پہلے، گورنر نے پانچویں جھارکھنڈ قانون ساز اسمبلی کے 14 ویں اجلاس سے خطاب کیا اور ایک تحریک عدم اعتماد پر بحث ہوئی۔

بہار میں بھی یہی صورتحال پیش آئی حالانکہ اسکی نوعیت مختلف رہی۔نتیش کمار کی قیادت میں راشتریہ جنتا دل اور متحدہ جنتا دل کی مخلوط حکومت نے 28 جنوری 2024 کو استعفیٰ دے دیا لیکن اس بار نتیش نے ایک بار پھر ایک نئے اتحادی پارٹنر یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا۔ تاہم اس بار اعتماد کا ووٹ یا 'فلور ٹیسٹ' عمل میں لانے سے قبل اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جس نے 12 فروری 2024 کو اسمبلی اجلاس شروع ہونے تک اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تھا۔

آئین ہند کی دفعہ 179 سے کی پہلی شق کے مطابق اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کم از کم 14 دن کا نوٹس دینے کے بعد ہی پیش کی جاسکتی ہے۔ چونکہ 28 جنوری کو بی جے پی لیڈر نند کشور یادو کی طرف سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی، اس لیے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اسمبلی کا اجلاس 12 فروری کو بلایا گیا تھا۔

اگست 2022 میں، بی جے پی کے رہنما وجے کمار سنہا، جو اب نئی حکومت میں نائب وزیر اعلیٰ ہیں، نے اسی طرح استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا جب نتیش کمار نے بی جے پی سے تعلقات توڑ لیے اور آر جے ڈی، کانگریس اور بائیں بازو کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ بعد میں عدم اعتماد کے ووٹ سے بچنے کے لیے سنہا نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کسی بھی صورت میں، آرٹیکل 181 (1) کے مطابق جس سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ہو وہ ایوان کی کارروائی کی صدارت نہیں کر سکتا جب مذکورہ تحریک کو زیر غور لایا جائے۔

بارہ فروری 2024 کو نئے سال کے بجٹ سیشن میں گورنر کے روایتی خطاب کے ساتھ کارروائی کا آغاز بہار لیجسلیچر کے دونوں ایوانوں میں ہوا۔ اس کے بعد جب بہار قانون ساز اسمبلی کا الگ سے اجلاس ہوا تو ایجنڈے کا پہلا آئٹم اسپیکر، اودھ بہاری چودھری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک تھی، جس کی صدارت ڈپٹی اسپیکر مہیشور ہزاری کر رہے تھے۔ اسپیکر کو ہٹا دیا گیا جب قرارداد کے حق میں 125 ایم ایل ایز نے ووٹ دیا اور 112 نے مخالفت کی۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے نئی این ڈی اے حکومت کے لیے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی تحریک پیش کی۔ اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد صوتی ووٹ کے ذریعے تحریک کو 129-0 سے منظور کر لیا گیا۔

اس سے قبل اسی طرح کے حالات یا تعطل میں گورنر کا رول اہم ہوتا تھا۔ گورنروں کو حکومت چلانے کے لیے اکثریت کا اعتماد رکھنے والے رہنما کو نامزد کرنے کیلئے اپنی صوابدید کا استعمال کرنے کی اجازت تھی جسکے لئے وہ مختلف طریقہ کار استعمال کرتے تھے۔ بعض اوقات خواہشمند امیدوار نے اپنے حامیوں کی دستخط شدہ فہرست جمع کرائی تاکہ گورنر کو اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ انہیں باگ ڈور سنبھالنے کی دعوت دیں۔ دوسرے اوقات میں گورنر نے حمایتی ایم ایل ایز کو راج بھون میں ان کے سامنے پریڈ کرنے کی درخواست کی۔ یہ طریقہ کار ہمیشہ کارگر نہیں ہوتا تھا۔ کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ حلف برداری کے بعد اکثر اپوزیشن جماعت یا جماعتیں حرکت میں آتی تھی جس کے نتیجے میں حکومت گر جاتی تھی جسکے بعد اعتماد یا عدم اعتماد کی مشق دوبارہ شروع ہوجاتی تھی۔

پھر فلور ٹیسٹ کا نظریہ کیا ہے اور یہ کیسے چل رہا ہے؟ فلور ٹیسٹ کی ابتداء ایس آر بومائی بمقابلہ یونین آف انڈیا (1994) کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے منسوب کی جا سکتی ہے۔ ایس آر بومائی 13 اگست 1988 سے 21 اپریل 1989 کے درمیان کرناٹک کے وزیر اعلیٰ تھے۔ 21 اپریل 1989 کو صدر ہند نے ایس آر بومائی حکومت کو آرٹیکل 356 کے تحت اس بنیاد پر برطرف کر دیا کہ اس نے بڑے پیمانے پر اعتماد کھونے کے بعد اکثریت کھو دی تھی اور صدر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ ریاست کرناٹک میں ایس آر بومئی نے اسمبلی میں اپنی اکثریت جانچنے کا موقع چاہا، لیکن کرناٹک کے اس وقت کے گورنر نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ناگالینڈ، میگھالیہ، راجستھان، مدھیہ پردیش اور ہماچل پردیش میں ریاستی حکومتوں کی برطرفی اور قانون ساز اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے دیگر معاملات تھے۔

ریاستی حکومتوں کو من مانے طریقے پر برطرف کئے جانے ، صدر راج کے نفاذ اور معلق اسمبلیوں کے معاملات کے پس منظر میں جب فریقین حکومت قائم کرنے کیلئے ایکدوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہورہے تھے تو سپریم کورٹ کی نو ججوں کی بنچ نے ایس آر بومائی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کا فرش یا فلور اکثریت کو جانچنے کا واحد فورم ہے نہ کہ گورنر کی موضوعاتی رائے۔ شاید اسی جملے کی وجہ سے فلور ٹیسٹ کی اصطلاح معرض وجود میں آئی ہے۔

صاحب مضمون کو اس ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kagnihotri25@gmail.com

حیدرآباد: ان دنوں فلور ٹیسٹ کے بارے میں کافی باتیں کی جارہی ہیں۔ ریاست جھارکھنڈ میں سربراہ ریاست کی تبدیلی ہوئی لیکن اسی اتحاد نے ایک نئے لیڈر کے تحت اقتدار میں واپسی کی۔ دوسری طرف بہار میں وہی لیڈر دوبارہ اقتدار میں ہے لیکن اب کی بار انکی حمایت کرنے والے لوگ بدل گئے۔ دونوں ہی صورتوں میں لیڈر نئے نظام کے تحت اپنی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

جھارکھنڈ میں، وزیر اعلی، ہیمنت سورین نے 31 جنوری 2024 کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے گرفتار کیے جانے پر استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد حکمراں اتحاد نے چمپائی سورین کو اپنا لیڈر منتخب کیا اور گورنر کو ایک خط پیش کیا جس میں چمپائی کو چیف منسٹر کے طور پر حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا گیا۔ کچھ تعطل کے بعد گورنر نے اپنی منظوری دے دی اور چمپائی کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ اس ڈرامائی پیش رفت کے بعد، 5 فروری 2024 کو نئی چمپائی سورین حکومت نے جھارکھنڈ قانون ساز اسمبلی کے فلور پر 47 کے مقابلے 29 ووٹوں سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ ووٹنگ سے پہلے، گورنر نے پانچویں جھارکھنڈ قانون ساز اسمبلی کے 14 ویں اجلاس سے خطاب کیا اور ایک تحریک عدم اعتماد پر بحث ہوئی۔

بہار میں بھی یہی صورتحال پیش آئی حالانکہ اسکی نوعیت مختلف رہی۔نتیش کمار کی قیادت میں راشتریہ جنتا دل اور متحدہ جنتا دل کی مخلوط حکومت نے 28 جنوری 2024 کو استعفیٰ دے دیا لیکن اس بار نتیش نے ایک بار پھر ایک نئے اتحادی پارٹنر یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا۔ تاہم اس بار اعتماد کا ووٹ یا 'فلور ٹیسٹ' عمل میں لانے سے قبل اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جس نے 12 فروری 2024 کو اسمبلی اجلاس شروع ہونے تک اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تھا۔

آئین ہند کی دفعہ 179 سے کی پہلی شق کے مطابق اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کم از کم 14 دن کا نوٹس دینے کے بعد ہی پیش کی جاسکتی ہے۔ چونکہ 28 جنوری کو بی جے پی لیڈر نند کشور یادو کی طرف سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی، اس لیے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اسمبلی کا اجلاس 12 فروری کو بلایا گیا تھا۔

اگست 2022 میں، بی جے پی کے رہنما وجے کمار سنہا، جو اب نئی حکومت میں نائب وزیر اعلیٰ ہیں، نے اسی طرح استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا جب نتیش کمار نے بی جے پی سے تعلقات توڑ لیے اور آر جے ڈی، کانگریس اور بائیں بازو کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ بعد میں عدم اعتماد کے ووٹ سے بچنے کے لیے سنہا نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کسی بھی صورت میں، آرٹیکل 181 (1) کے مطابق جس سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ہو وہ ایوان کی کارروائی کی صدارت نہیں کر سکتا جب مذکورہ تحریک کو زیر غور لایا جائے۔

بارہ فروری 2024 کو نئے سال کے بجٹ سیشن میں گورنر کے روایتی خطاب کے ساتھ کارروائی کا آغاز بہار لیجسلیچر کے دونوں ایوانوں میں ہوا۔ اس کے بعد جب بہار قانون ساز اسمبلی کا الگ سے اجلاس ہوا تو ایجنڈے کا پہلا آئٹم اسپیکر، اودھ بہاری چودھری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک تھی، جس کی صدارت ڈپٹی اسپیکر مہیشور ہزاری کر رہے تھے۔ اسپیکر کو ہٹا دیا گیا جب قرارداد کے حق میں 125 ایم ایل ایز نے ووٹ دیا اور 112 نے مخالفت کی۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے نئی این ڈی اے حکومت کے لیے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی تحریک پیش کی۔ اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد صوتی ووٹ کے ذریعے تحریک کو 129-0 سے منظور کر لیا گیا۔

اس سے قبل اسی طرح کے حالات یا تعطل میں گورنر کا رول اہم ہوتا تھا۔ گورنروں کو حکومت چلانے کے لیے اکثریت کا اعتماد رکھنے والے رہنما کو نامزد کرنے کیلئے اپنی صوابدید کا استعمال کرنے کی اجازت تھی جسکے لئے وہ مختلف طریقہ کار استعمال کرتے تھے۔ بعض اوقات خواہشمند امیدوار نے اپنے حامیوں کی دستخط شدہ فہرست جمع کرائی تاکہ گورنر کو اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ انہیں باگ ڈور سنبھالنے کی دعوت دیں۔ دوسرے اوقات میں گورنر نے حمایتی ایم ایل ایز کو راج بھون میں ان کے سامنے پریڈ کرنے کی درخواست کی۔ یہ طریقہ کار ہمیشہ کارگر نہیں ہوتا تھا۔ کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ حلف برداری کے بعد اکثر اپوزیشن جماعت یا جماعتیں حرکت میں آتی تھی جس کے نتیجے میں حکومت گر جاتی تھی جسکے بعد اعتماد یا عدم اعتماد کی مشق دوبارہ شروع ہوجاتی تھی۔

پھر فلور ٹیسٹ کا نظریہ کیا ہے اور یہ کیسے چل رہا ہے؟ فلور ٹیسٹ کی ابتداء ایس آر بومائی بمقابلہ یونین آف انڈیا (1994) کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے منسوب کی جا سکتی ہے۔ ایس آر بومائی 13 اگست 1988 سے 21 اپریل 1989 کے درمیان کرناٹک کے وزیر اعلیٰ تھے۔ 21 اپریل 1989 کو صدر ہند نے ایس آر بومائی حکومت کو آرٹیکل 356 کے تحت اس بنیاد پر برطرف کر دیا کہ اس نے بڑے پیمانے پر اعتماد کھونے کے بعد اکثریت کھو دی تھی اور صدر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ ریاست کرناٹک میں ایس آر بومئی نے اسمبلی میں اپنی اکثریت جانچنے کا موقع چاہا، لیکن کرناٹک کے اس وقت کے گورنر نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ناگالینڈ، میگھالیہ، راجستھان، مدھیہ پردیش اور ہماچل پردیش میں ریاستی حکومتوں کی برطرفی اور قانون ساز اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے دیگر معاملات تھے۔

ریاستی حکومتوں کو من مانے طریقے پر برطرف کئے جانے ، صدر راج کے نفاذ اور معلق اسمبلیوں کے معاملات کے پس منظر میں جب فریقین حکومت قائم کرنے کیلئے ایکدوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہورہے تھے تو سپریم کورٹ کی نو ججوں کی بنچ نے ایس آر بومائی کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کا فرش یا فلور اکثریت کو جانچنے کا واحد فورم ہے نہ کہ گورنر کی موضوعاتی رائے۔ شاید اسی جملے کی وجہ سے فلور ٹیسٹ کی اصطلاح معرض وجود میں آئی ہے۔

صاحب مضمون کو اس ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kagnihotri25@gmail.com

Last Updated : Feb 13, 2024, 6:35 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.