حیدرآباد: جموں کے علاقے میں ہندوستانی فوج پر پرتشدد حملوں میں اچانک اضافے نے بہت سے تجزیہ کاروں کو اس کے پاکستان اور چین کے ساتھ سرحد کے استحکام اور اس سال کے آخر میں سپریم کورٹ کی ہدایات کے تحت جموں و کشمیر میں ہونے والے آئندہ انتخابات کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
جموں میں اس طرح کے حملوں میں اچانک اضافہ ایک اہم سوال کو جنم دیتا ہے۔ کیا یہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ چین اور پاکستان کے ساتھ دو محاذوں پر الجھاؤ مستقبل میں کونسا رخ اختیار کرنے والا ہے؟ فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز کے خلاف حالیہ حملے کشمیر میں نظر آنے والے جوش و خروش کے بالکل برعکس ہیں کیونکہ ہزاروں سیاح وادی کے قدرتی حسن کو دیکھنے کے لیے واردِ کشمیر ہورہے ہیں۔
سیاحوں کی اس بڑی تعداد کی آمد ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب عسکریت پسند ریاست کے جموں ضلع کے ریاسی قصبے میں کھائی میں گرنے والی بس پر بے رحمانہ فائرنگ کر رہے تھے۔ یہ واقعہ 9 جون کو اسی وقت پیش آیا جب نریندر مودی تیسری مدت کے لیے وزیر اعظم کا حلف اٹھا رہے تھے۔ اس کے بعد سکیورٹی اہلکاروں پر کئی اور حملے ہو چکے ہیں۔ ڈوڈہ، ریاسی اور کٹھوعہ میں زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں، جموں خطہ کے وہ اضلاع جو کئی سالوں سے خاموش ہیں۔
دہشت گردی کے حملوں میں تبدیلی کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟
پہلی وجہ یہ ہے کہ اب توجہ کشمیر سے جموں کے کم عسکریت پسندی والے خطے کی طرف مبذول ہو گئی ہے۔ اسٹریٹجک ماہرین کے نقطۂ نظر سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ جون 2020 میں گلوان میں ہونے والے واقعات کے بعد چینی فوجیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جموں سے فوجوں کو لداخ منتقل کرنے کے بعد اس خطے میں عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ گلوان میں بھارتی فوج کے بیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
لداخ جھڑپ کے بعد سے ہندوستانی فوج چین کے قریب واقع سیکٹروں میں اپنی موجودگی کو بڑھا رہی ہے۔ یہ قیاس کرنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر بھارت اور پاکستان یا بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو اسلام آباد اور بیجنگ دونوں اپنی فوجی کارروائیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کر لیں گے اور بھارت اس سے کہیں زیادہ بڑھتا ہوا عسکریت پسندی کا چیلنج دیکھ سکتا ہے جو اب نظر آ رہا ہے۔
ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ہندوستانی فوجیوں پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے پاس معیاری ہتھیار اور لاجسٹک سپورٹ موجود ہے۔ ان کے خیال میں زیادہ تر دہشت گرد پاکستان سے دراندازی کررہے ہیں۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ انہیں پاکستان یا چین کی حمایت حاصل ہے۔ اپنے بل بوتے پر، وہ ایک مضبوط فوج کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھے۔ جب اس کا اپنا ملک اور حکومت بحران کا شکار ہیں تو پاکستانی فوج ایسا کیوں کرے گی؟ ہندوستانی دفاعی حلقوں میں یہ خیال ہے کہ پاکستانی فوج یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کی منسوخی کی مخالفت کرنے والوں کو عسکریت پسندوں کی طرف سے کافی حمایت حاصل ہے۔
یہ استدلال بھی پیش کیا جارہا ہے کہ فوج جموں خطے میں اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر یعنی معیاری طریقہ عمل جسے ایس او پی بھی کہا جاتا ہے پر عمل پیرا نہیں ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اگر فوج اس بات کو یقینی بنا لیتی کہ اس کی مضبوط گاڑیاں روڈ اوپننگ پارٹیز (آر او پی) سے پہلے لگائی جاتیں تو عسکریت پسندوں کے ان گاڑیوں کو اڑانے میں کامیاب ہونے کا امکان نہ ہوتا۔ فوج کے پاس انتہائی جدید قسم کی بکتر بند گاڑیاں ہیں جن کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے فی گاڑی ہے۔ ایسی گاڑیوں کو صرف آر ڈی ایکس سے ہی اڑایا جاسکتا ہے۔
کشمیر میں بڑھتی ہوئی سیاحت
تشدد میں اس حالیہ اضافے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس نے وادیٔ کشمیر میں بڑھتی ہوئی سیاحت پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ ان دنوں نہ صرف سری نگر بلکہ پورے کشمیر میں سیاحوں کے لیے کمرہ تلاش کرنا مشکل ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی ایک آدھ کمرہ حاصل کر بھی لیتا ہے تو وہ خوش قسمت ہوتا ہے۔ عام کمروں کا کرایہ 3 اسٹار ہوٹل کے کمروں کے برابر ہے۔ زیادہ تر ہاؤس بوٹس بھری ہوئی ہیں اور ڈاؤن ٹاؤن اور لال چوک میں گجراتی، مراٹھی، بنگالی اور ہندی زبان کی مختلف بولیاں سننے کو ملتی ہیں۔
فیرن (لمبے کشمیری لباس) یا خشک میوہ جات خریدتے وقت بہت سارے سیاح دکانداروں سے استفسار کرتے ہیں کہ کیا یہ وہی جگہ ہے جو دہائیوں سے تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ کیا یہ معمولات کی واپسی کے آثار نہیں ہیں، جسے مرکزی حکومت نے 'آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد نیا کشمیر' کے طور پر پیش کیا ہے؟ دیگر اشارے بھی مسلمانوں کی اکثریت والے شہر میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ دیتے ہیں۔
صبح کے وقت، "ہر ہر مہادیو" کی بلند آواز مقامی مندروں سے برآمد ہوتی ہے۔ جو مسجدوں سے آنے والی اذان کی آوازوں کے ساتھ گھل مل جاتی ہیں جو مؤذن کی طرف سے مؤمنین کو نماز کے لیے مسجد آنے کی پکار ہوتی ہے۔ اس مسابقتی فرقہ واریت کے مضمرات ہو سکتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ کئی کشمیری پنڈت گزشتہ برسوں میں وادی میں آباد ہوئے ہیں۔ کچھ سال پہلے، یہ ناقابل فہم تھا کہ سری نگر میں کسی مندر سے بھجن کی آوازیں سننے کو ملیں۔ اب اسے انتظامیہ نے ملک کے مختلف حصوں سے سیاحوں کی آمد کے ساتھ ساتھ پورے شہر میں فوج کی موجودگی کے ذریعے پورا کیا ہے۔
سری نگر کے جو لوگ سیاحت کے کاروبار سے وابستہ ہیں، ان سے بات کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہر کوئی پیسہ کما رہا ہے اور وہ عام طور پر حالات سے مطمئن ہیں۔ تاہم، ایسا نہیں ہے۔ عام کشمیری، اپنا مافی الضمیر دینے سے پہلے آپ کے کندھے کے اوپر سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں کوئی اس کی بات سن تو نہیں لے رہا ہے۔ وہ کبھی اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ ان کا دوست کون ہے یا دشمن؟۔
ایک مقامی شال فروش کی صوابدید کے مطابق وادی میں کوئی درمیانی خیال و عمل نہیں ہے۔ حقیقت سیاہ اور سفید کی طرح واضح ہے۔ ان کے مطابق کشمیریوں کا کوئی سیاسی نمائندہ نہیں ہے جو ان کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرے یا اپنے جذبات کا اظہار کر سکے۔ اگر عسکریت پسند اندر داخل ہونے اور مقامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کی ایک وجہ ہے، اور وہ وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو اب بھی ان کے مقصد سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
اسمبلی انتخابات اور طاقت کا توازن
سیاسی محاذ پر، یہ معقول ہے کہ جموں و کشمیر میں گورنر راج کے چھ سال بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات کے بارے میں لوگوں کو بہت سی توقعات ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ گورنر پولیس کو سنبھالتے رہیں گے اور افسروں کے تبادلے کرتے رہیں گے، بالکل اسی طرح جیسے دہلی میں ہوتا ہے، لیکن بڑی تبدیلی یہ ہوگی کہ یہ ریاستی حکومت ہوگی جو عسکریت پسندوں کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرے گی۔
اگر انتخابات واقعی منعقد ہوتے ہیں (اور بڑھتے ہوئے تشدد کی وجہ سے ملتوی نہیں ہوتے ہیں) تو یہ ایک مختلف کشمیر ہوگا جہاں ان کا انعقاد کیا جائے گا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے، فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر، اور محبوبہ مفتی جیسے رہنما کی عوامی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ انہیں غیر متعلق ہونے کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑا۔ حال ہی میں منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں عمر عبداللہ حیرت انگیز طور پر ایک مقید رہنما انجینئر رشید سے ہار گئے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ رشید جیسے مزید لیڈر اقتدار میں آئیں گے اگر وہ ریاست میں موجودہ طاقت کے توازن کو الٹ سکتے ہوں۔ تاہم بڑا سوال یہ ہے کہ الیکشن کے انعقاد سے کیا تشدد کا واقعی خاتمہ ہوگا؟ چاہے یہ تشدد مقامی کشمیریوں کی طرف سے ہو یا دراندازوں کی طرف سے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کے انعقاد سے کیا وادی میں امن قائم ہوسکے گا؟
(مضمون نگار ایک سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔ اس مضمون میں شائع شدہ آراء مصنف کی ہیں اور یہ ای ٹی وی بھارت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے۔)
یہ بھی پڑھیں: