ETV Bharat / opinion

جموں خطے میں عسکری کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے: دفاعی ماہر میجر جنرل ہرشا ککڑ - Jammu Militant Attacks - JAMMU MILITANT ATTACKS

دفاعی تجزیہ نگار سبکدوش میجر جنرل ہرشا ککڑ کا ماننا ہے کہ جموں علاقے میں گزشتہ کئی ماہ سے ہونے والی شدت پسندانہ کارروائیوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور حکومت ہند کو ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے شدت پسندوں کے عزائم کا توڑ کیا جاسکے۔ ان کے مطابق حکومت کو بالاکوٹ جیسی کوئی بڑی کارروائی کرنے کے امکانات پر غور کرنا چاہیے۔

Military operations have increased in Jammu region: Defense expert Major General Harsha Kakar
جموں خطے میں عسکری کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے: دفاعی ماہر میجر جنرل ہرشا کاکڑ (IANS Photo)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 24, 2024, 2:47 PM IST

جموں وکشمیر: جموں خطے میں گزشتہ کچھ مہینوں میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو غیر متناسب ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے نتیجے میں سیاسی اور سوشل میڈیا کے حلقوں میں ردعمل سامنے آیا ہے۔ حکومت اور بالواسطہ طور پر سکیورٹی فورسز پر جوابی کارروائی کرنے کا دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ ایسا اس وقت ہورہا ہے جب وادیٔ کشمیر میں شدت پسندانہ کارروائیوں میں بھی کمی آئی ہے۔ اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ خطے میں دہشت گردی ختم ہو گئی ہے لیکن کم از کم اس وقت تک اس پر قابو پا لیا گیا ہے۔

پاکستان کی اعانت یافتہ دہشت گردی، جس کا بھارت کو جموں و کشمیر میں سامنا ہے، اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ اعانت کار کو اس کی قیمت چکانے کا سبق نہ دیا جائے۔ بات چیت کبھی بھی حل نہیں ہو گی کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی مشترکہ بنیاد نہیں ہے۔ دہشت گردی ان خطوں کو منتقل ہو جائے گی جہاں سکیورٹی فورسز کی موجودگی کم ہوگی۔ یہ ایک فطری عمل ہے اور جموں کی پٹی میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی ایک وجہ ہے۔

دہشت گرد کیسے خطوں کا انتخاب کرتے ہیں

دہشت گرد ایسے خطوں کا بھی انتخاب کریں گے جہاں انہیں اپنی کارروائیوں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ اس معاملے میں، گھنے جنگل، غاروں کے طور پر ٹھکانے اور ایل او سی کی قربت دہشت گردوں کے حق میں ہے۔ ایسے خطوں میں، ڈرون جیسے فورس ملٹی پلائر، جو لائیو ان پٹ فراہم کرتے ہیں، کی افادیت محدود ہے۔ یہاں نگرانی کا دائرہ محدود ہے۔ اس کے علاوہ، چند حامیوں کی موجودگی، جو زیادہ تر مالی فوائد اور ممکنہ طور پر نظریہ سے متاثر ہیں، دہشت گردوں کو سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت کے بارے میں رہنمائی سمیت رسد اور پیشگی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ انہیں مکمل طور پر الگ تھلگ ہونے سے روکتا ہے اور ان کے خلاف کارروائیوں کو چیلنج بنا دیتا ہے۔

کیا جموں و کشمیر کی زمینی صورتحال بہتر ہوئی ہے؟

حال ہی میں مکمل ہونے والے انتخابات کے دوران سیاسی بیانات جاری کیے گئے۔ جن میں کہا گیا کہ جموں و کشمیر کی زمینی صورتحال کافی بہتر ہوگئی ہے۔ اور حکومت چند علاقوں سے افسپا یعنی آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ ہٹانے پر غور کر رہی ہے۔ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ راشٹریہ رائفلز کے چند بٹالین فوج میں واپس ضم کیے جائیں گے۔ یہ تشخیص صحیح نہیں تھی۔

لداخ میں دراندازی کے بعد، جموں سیکٹر سے کچھ فوجی ٹکڑیوں کو ہٹایا گیا تھا اور یہ مفروضہ قائم کیا گیا تھا کہ اس علاقے میں صورتحال بہتر ہے اس لیے فورسز کو ری ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔ یہ جلد بازی کا اقدام تھا۔ اس کے نتیجے میں خالی جگہیں پیدا ہوئیں جن سے عسکریت پسندوں نے فائدہ اٹھایا۔

جموں و کشمیر میں دہشت گردی کو وسیع نظریے سے دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ منظر نامے اس سے بھی بدتر رہے ہیں۔ لیکن بالآخر صورتحال پر قابو پایا گیا ہے۔ تاہم، اس میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ آپریشنز میں جلدی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ہونی چاہیے۔ یہ آپریشن دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والوں کے جانی نقصان کے ساتھ ہمیشہ شروع ہوتے ہیں۔ کیونکہ پینڈولم آہستہ آہستہ ان کے حق میں جھولتا ہے۔

کیا انٹیلی جنس گرڈز کو فعال کرنے کی ضرورت ہے؟

انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کو صرف فورس کی سطح کو بڑھا کر حل نہیں کیا جا سکتا۔ انٹیلی جنس گرڈ کا قیام، خطوں پر جماؤ اور مسلسل جستجو بالآخر کھیل کو بدل دے گی۔ شامل فوجیوں کو تربیت اور واقفیت کے لیے وقت درکار ہوگا، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہلاکتیں کم سے کم ہوں۔ انٹیلی جنس گرڈز کو دوبارہ فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹوں میں اسپیشل فورسز کی تعیناتی کا بھی ذکر ہے، جو علاقے اور آپریشن کی متوقع نوعیت سے کافی واقف ہیں۔ وہ طاقت کے ساتھ ضرب لگانے والے ہوں گے۔

مقامی ولیج ڈیفنس گارڈز، جو ممکنہ ٹھکانوں سمیت خطے کی زمین سے اچھی طرح واقف ہیں، کو شامل کیا جا رہا ہے۔ الیکٹرانک نگرانی کو اعتبار حاصل ہو جائے گا، حالانکہ دہشت گردوں کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے نئے ٹکنالوجی کے آلات اس میں رکاوٹ ہیں۔ یہ ٹوٹنے میں وقت لگے گا۔ دراندازی کی ممکنہ کوششوں کو کم کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی گرڈ کو مضبوط کیا جائے گا۔ اوور گراؤنڈ کارکنوں کو سائیڈ لائن کر دیا جائے گا اور دہشت گردوں کو ان کے حامیوں سے الگ تھلگ کر دیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپریشنز ایک لائحہ عمل کے تحت کیے جائیں گے اور ایک منصوبے کی بنیاد پر نافذ کیے جائیں گے، جس میں ریاست کے تمام عناصر شامل ہوں گے۔

اس کے ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اپنے شہریوں کا جانی نقصان نہ ہو۔ اپریل 2003 میں اس سیکٹر میں پہلے کی کارروائیوں میں، مقامی چرواہوں کو پہاڑیوں میں جانے سے روکا گیا تھا۔ اس سے دہشت گردوں کو مزید الگ تھلگ کرنے میں مدد ملی۔ حیرت ہے کہ کیا فی الحال اسی کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ حکومت مقامی لوگوں کو کم سے کم تکلیف دینے کی خواہشمند ہوگی۔

امرناتھ یاتریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا

امرناتھ یاترا اس وقت چل رہی ہے۔ اس کی حفاظت ایک اضافی تشویش ہے۔ اگرچہ یاترا کے راستے کو صاف رکھنے کے لیے فوج تعینات نہیں ہے۔ تاہم ارادہ یہ ہے کہ اس کے انعقاد کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں سکیورٹی فورسز کی ہلاکتیں قوم کو دکھ دیتی ہیں۔ یہ متوقع ہے۔ تاہم یہ وقت طاقتوں پر تنقید اور دباؤ ڈالنے کا نہیں ہے۔ نہ ہی قوم کو معجزوں کی امید رکھنی چاہیے۔ ان کارروائیوں میں صبر اور تفصیلی منصوبہ بندی شامل ہے۔ یاد رہے کہ دہشت گردوں کے پاس پاکستان واپس آنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وہ یہاں ہیں جب تک کہ ان کے خاتمے تک نشانہ بناتے رہیں۔ ان کا ایک طرفہ ٹکٹ ہے۔

قومی سطح پر ہمیں اپنی سرخ لکیروں کو واضح طور پر بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ سرحد پار اور بالاکوٹ کی کارروائی نے قوم کے عزم کا اظہار کیا لیکن اس کا اثر وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑ گیا۔ ایک بار پھر واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ ماضی کی کارروائیوں سے سیاسی فائدہ اٹھانا اور انتخابی مہم کے دوران جوابی حملے کی دھمکی دینا بھی حل نہیں ہے۔ جب تک بار بار ظاہر نہ کیا جائے، یہ صرف سیاسی نعرے ہی رہ جاتے ہیں۔

پاکستان، افغانستان سرحد پر مصروف ہے

پاکستان کی اندرونی صورتحال قابل توجہ ہے۔ فی الوقت، پاکستان چین کی ضروریات کے پیش نظر اپنے مغربی صوبوں پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور ہے کیونکہ یہاں سے سی پیک کا گزر ہوتا ہے اور اس کی سلامتی پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ پاکستان کی دستیاب فورسز خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں تعینات ہیں۔ وہاں آپریشن پلان کے مطابق آگے نہیں بڑھ رہے ہیں، پاک افواج کے جانی نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ تناؤ بڑھ رہا ہے اور جنگ قریب ہے۔

جموں و کشمیر میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا مقصد بھارت کو اندرونی طور پر مصروف رکھنا ہے تاکہ پاکستان کو اپنے علاقوں میں بغیر مداخلت کے کارروائیاں کرنے کا موقعہ ملے۔ پاکستان ایل اے سی کے ساتھ چین کے ساتھ ہندوستان کی کشیدگی پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ اسے انتقامی کارروائی سے روکے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین اور پاکستان مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس کا مقابلہ بھارت کو کرنا چاہیے۔

حکومت کے سامنے آپشنز موجود ہیں۔ ایل او سی پر جنگ بندی کو نظر انداز کرنا اور پاکستان کی پوسٹوں، دہشت گردوں کے کیمپوں کو نشانہ بنانا، چاہے وہ دیہات میں ہی کیوں نہ ہوں، ایک آپشن ہے۔ لیکن ایسی کارروائی کرنے سے پہلے سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ کیا چین ایل اے سی کو فعال کرکے پاکستان کو سپورٹ کرنے کی کوشش کرے گا؟ یہ ایک امکان ہے جس پر حکومت کو غور کرنا پڑے گا۔ ایک اور آپشن یہ ہے کہ ایل او سی پار کرکے کارروائی کی جائے۔ اس آپشن پر بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغام دیا جانا چاہیے۔ یہ پیغام کیسے دیا جائے، یہ حکومت کی صوابدید پر منحصر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:

جموں صوبہ عسکری کارروائیوں کا نیا مرکز - Jammu Militant Attacks

جموں وکشمیر: جموں خطے میں گزشتہ کچھ مہینوں میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو غیر متناسب ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے نتیجے میں سیاسی اور سوشل میڈیا کے حلقوں میں ردعمل سامنے آیا ہے۔ حکومت اور بالواسطہ طور پر سکیورٹی فورسز پر جوابی کارروائی کرنے کا دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ ایسا اس وقت ہورہا ہے جب وادیٔ کشمیر میں شدت پسندانہ کارروائیوں میں بھی کمی آئی ہے۔ اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ خطے میں دہشت گردی ختم ہو گئی ہے لیکن کم از کم اس وقت تک اس پر قابو پا لیا گیا ہے۔

پاکستان کی اعانت یافتہ دہشت گردی، جس کا بھارت کو جموں و کشمیر میں سامنا ہے، اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ اعانت کار کو اس کی قیمت چکانے کا سبق نہ دیا جائے۔ بات چیت کبھی بھی حل نہیں ہو گی کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی مشترکہ بنیاد نہیں ہے۔ دہشت گردی ان خطوں کو منتقل ہو جائے گی جہاں سکیورٹی فورسز کی موجودگی کم ہوگی۔ یہ ایک فطری عمل ہے اور جموں کی پٹی میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی ایک وجہ ہے۔

دہشت گرد کیسے خطوں کا انتخاب کرتے ہیں

دہشت گرد ایسے خطوں کا بھی انتخاب کریں گے جہاں انہیں اپنی کارروائیوں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ اس معاملے میں، گھنے جنگل، غاروں کے طور پر ٹھکانے اور ایل او سی کی قربت دہشت گردوں کے حق میں ہے۔ ایسے خطوں میں، ڈرون جیسے فورس ملٹی پلائر، جو لائیو ان پٹ فراہم کرتے ہیں، کی افادیت محدود ہے۔ یہاں نگرانی کا دائرہ محدود ہے۔ اس کے علاوہ، چند حامیوں کی موجودگی، جو زیادہ تر مالی فوائد اور ممکنہ طور پر نظریہ سے متاثر ہیں، دہشت گردوں کو سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت کے بارے میں رہنمائی سمیت رسد اور پیشگی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ انہیں مکمل طور پر الگ تھلگ ہونے سے روکتا ہے اور ان کے خلاف کارروائیوں کو چیلنج بنا دیتا ہے۔

کیا جموں و کشمیر کی زمینی صورتحال بہتر ہوئی ہے؟

حال ہی میں مکمل ہونے والے انتخابات کے دوران سیاسی بیانات جاری کیے گئے۔ جن میں کہا گیا کہ جموں و کشمیر کی زمینی صورتحال کافی بہتر ہوگئی ہے۔ اور حکومت چند علاقوں سے افسپا یعنی آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ ہٹانے پر غور کر رہی ہے۔ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ راشٹریہ رائفلز کے چند بٹالین فوج میں واپس ضم کیے جائیں گے۔ یہ تشخیص صحیح نہیں تھی۔

لداخ میں دراندازی کے بعد، جموں سیکٹر سے کچھ فوجی ٹکڑیوں کو ہٹایا گیا تھا اور یہ مفروضہ قائم کیا گیا تھا کہ اس علاقے میں صورتحال بہتر ہے اس لیے فورسز کو ری ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔ یہ جلد بازی کا اقدام تھا۔ اس کے نتیجے میں خالی جگہیں پیدا ہوئیں جن سے عسکریت پسندوں نے فائدہ اٹھایا۔

جموں و کشمیر میں دہشت گردی کو وسیع نظریے سے دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ منظر نامے اس سے بھی بدتر رہے ہیں۔ لیکن بالآخر صورتحال پر قابو پایا گیا ہے۔ تاہم، اس میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ آپریشنز میں جلدی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ہونی چاہیے۔ یہ آپریشن دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والوں کے جانی نقصان کے ساتھ ہمیشہ شروع ہوتے ہیں۔ کیونکہ پینڈولم آہستہ آہستہ ان کے حق میں جھولتا ہے۔

کیا انٹیلی جنس گرڈز کو فعال کرنے کی ضرورت ہے؟

انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کو صرف فورس کی سطح کو بڑھا کر حل نہیں کیا جا سکتا۔ انٹیلی جنس گرڈ کا قیام، خطوں پر جماؤ اور مسلسل جستجو بالآخر کھیل کو بدل دے گی۔ شامل فوجیوں کو تربیت اور واقفیت کے لیے وقت درکار ہوگا، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہلاکتیں کم سے کم ہوں۔ انٹیلی جنس گرڈز کو دوبارہ فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹوں میں اسپیشل فورسز کی تعیناتی کا بھی ذکر ہے، جو علاقے اور آپریشن کی متوقع نوعیت سے کافی واقف ہیں۔ وہ طاقت کے ساتھ ضرب لگانے والے ہوں گے۔

مقامی ولیج ڈیفنس گارڈز، جو ممکنہ ٹھکانوں سمیت خطے کی زمین سے اچھی طرح واقف ہیں، کو شامل کیا جا رہا ہے۔ الیکٹرانک نگرانی کو اعتبار حاصل ہو جائے گا، حالانکہ دہشت گردوں کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے نئے ٹکنالوجی کے آلات اس میں رکاوٹ ہیں۔ یہ ٹوٹنے میں وقت لگے گا۔ دراندازی کی ممکنہ کوششوں کو کم کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی گرڈ کو مضبوط کیا جائے گا۔ اوور گراؤنڈ کارکنوں کو سائیڈ لائن کر دیا جائے گا اور دہشت گردوں کو ان کے حامیوں سے الگ تھلگ کر دیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپریشنز ایک لائحہ عمل کے تحت کیے جائیں گے اور ایک منصوبے کی بنیاد پر نافذ کیے جائیں گے، جس میں ریاست کے تمام عناصر شامل ہوں گے۔

اس کے ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اپنے شہریوں کا جانی نقصان نہ ہو۔ اپریل 2003 میں اس سیکٹر میں پہلے کی کارروائیوں میں، مقامی چرواہوں کو پہاڑیوں میں جانے سے روکا گیا تھا۔ اس سے دہشت گردوں کو مزید الگ تھلگ کرنے میں مدد ملی۔ حیرت ہے کہ کیا فی الحال اسی کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ حکومت مقامی لوگوں کو کم سے کم تکلیف دینے کی خواہشمند ہوگی۔

امرناتھ یاتریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا

امرناتھ یاترا اس وقت چل رہی ہے۔ اس کی حفاظت ایک اضافی تشویش ہے۔ اگرچہ یاترا کے راستے کو صاف رکھنے کے لیے فوج تعینات نہیں ہے۔ تاہم ارادہ یہ ہے کہ اس کے انعقاد کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں سکیورٹی فورسز کی ہلاکتیں قوم کو دکھ دیتی ہیں۔ یہ متوقع ہے۔ تاہم یہ وقت طاقتوں پر تنقید اور دباؤ ڈالنے کا نہیں ہے۔ نہ ہی قوم کو معجزوں کی امید رکھنی چاہیے۔ ان کارروائیوں میں صبر اور تفصیلی منصوبہ بندی شامل ہے۔ یاد رہے کہ دہشت گردوں کے پاس پاکستان واپس آنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وہ یہاں ہیں جب تک کہ ان کے خاتمے تک نشانہ بناتے رہیں۔ ان کا ایک طرفہ ٹکٹ ہے۔

قومی سطح پر ہمیں اپنی سرخ لکیروں کو واضح طور پر بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ سرحد پار اور بالاکوٹ کی کارروائی نے قوم کے عزم کا اظہار کیا لیکن اس کا اثر وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑ گیا۔ ایک بار پھر واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ ماضی کی کارروائیوں سے سیاسی فائدہ اٹھانا اور انتخابی مہم کے دوران جوابی حملے کی دھمکی دینا بھی حل نہیں ہے۔ جب تک بار بار ظاہر نہ کیا جائے، یہ صرف سیاسی نعرے ہی رہ جاتے ہیں۔

پاکستان، افغانستان سرحد پر مصروف ہے

پاکستان کی اندرونی صورتحال قابل توجہ ہے۔ فی الوقت، پاکستان چین کی ضروریات کے پیش نظر اپنے مغربی صوبوں پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور ہے کیونکہ یہاں سے سی پیک کا گزر ہوتا ہے اور اس کی سلامتی پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ پاکستان کی دستیاب فورسز خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں تعینات ہیں۔ وہاں آپریشن پلان کے مطابق آگے نہیں بڑھ رہے ہیں، پاک افواج کے جانی نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ تناؤ بڑھ رہا ہے اور جنگ قریب ہے۔

جموں و کشمیر میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا مقصد بھارت کو اندرونی طور پر مصروف رکھنا ہے تاکہ پاکستان کو اپنے علاقوں میں بغیر مداخلت کے کارروائیاں کرنے کا موقعہ ملے۔ پاکستان ایل اے سی کے ساتھ چین کے ساتھ ہندوستان کی کشیدگی پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ اسے انتقامی کارروائی سے روکے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین اور پاکستان مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس کا مقابلہ بھارت کو کرنا چاہیے۔

حکومت کے سامنے آپشنز موجود ہیں۔ ایل او سی پر جنگ بندی کو نظر انداز کرنا اور پاکستان کی پوسٹوں، دہشت گردوں کے کیمپوں کو نشانہ بنانا، چاہے وہ دیہات میں ہی کیوں نہ ہوں، ایک آپشن ہے۔ لیکن ایسی کارروائی کرنے سے پہلے سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ کیا چین ایل اے سی کو فعال کرکے پاکستان کو سپورٹ کرنے کی کوشش کرے گا؟ یہ ایک امکان ہے جس پر حکومت کو غور کرنا پڑے گا۔ ایک اور آپشن یہ ہے کہ ایل او سی پار کرکے کارروائی کی جائے۔ اس آپشن پر بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغام دیا جانا چاہیے۔ یہ پیغام کیسے دیا جائے، یہ حکومت کی صوابدید پر منحصر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:

جموں صوبہ عسکری کارروائیوں کا نیا مرکز - Jammu Militant Attacks

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.