غزہ: پچھلے پانچ مہینوں میں اسرائیل نے حماس کے ہزاروں جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے، حماس کی درجنوں سرنگیں تباہ کی ہیں اور غزہ کی پٹی پر اب تک سب سے جان لیوا تباہی مچائی ہے۔ لیکن اسرائیل کو اب بھی ایک مخمصے کا سامنا ہے جو جنگ کے آغاز سے ہی واضح تھا۔ یہ مسئلہ حماس کے پاس موجود یرغمالی ہیں جس سے اسرائیل تشویش میں مبتلا ہے۔
- حماس کی تباہی کا مطلب یرغمالیوں کی موت؟
اسرائیل یا تو حماس کو ختم کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ غزہ میں ابھی تک قید 100 یرغمالیوں کی تقریباً یقینی موت ہو جائے گی۔ یا تو نتن یاہو حکومت کو ایک ایسا معاہدہ کرنا پڑ سکتا ہے جس سے حماس کو تاریخی فتح کا دعویٰ کرنے کا موقع مل جائے گا۔ دونوں میں سے کوئی بھی نتیجہ اسرائیلیوں کے لیے اذیت ناک ہو گا۔ یہ ممکنہ طور پر وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کے طویل سیاسی کیرئیر کے لیے ایک شرمناک انجام پر مہر لگ جائے گا۔
نتن یاہو، کم از کم عوام میں، اس طرح کے کسی مخمصے کی تردید کرتے ہیں۔ انھوں نے حماس کو تباہ کرنے اور تمام یرغمالیوں کو بازیاب کرانے کا عزم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے یرغمالیوں کی رہائی کو یا تو امدادی مشنز یا جنگ بندی کے معاہدوں کے ذریعے ممکن بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ فتح چند ہفتوں میں مل جائے گی۔
اسرائیل میں جو سروے ہوئے ہیں اس کے مطابق اگر ابھی انتخابات ہوتے ہیں تو نتن یاہو کی شکست طئے ہے۔ اور جب تک جنگ جاری رہے گی، وہ قبل از وقت انتخابات سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن یہ ناگزیر لگتا ہے کہ نتن یاہو کو کسی وقت یرغمالیوں اور فوجی فتح کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔
دریں اثنا، حماس اگلے ہفتے شروع ہونے والے مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان سے قبل عارضی جنگ بندی تک پہنچنے یا رفح میں متوقع اسرائیلی آپریشن میں تاخیر کرنے کے لیے کوئی جلدی نہیں کر رہی ہے۔
7 اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ حماس کے رہنما یحییٰ سنور کے پاس یہ ماننے کی وجہ ہے کہ جب تک وہ یرغمالیوں کو اپنے پاس رکھیں گے، وہ بالآخر جنگ کو اپنی شرائط پر ختم کر سکتے ہیں۔
- یحییٰ سنور کی منصوبہ بندی:
اسرائیلی جیلوں میں گزارے ہوئے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے میں، حماس کے سینئر رہنما یحییٰ سنور نے مبینہ طور پر روانی سے عبرانی زبان سیکھی اور اسرائیلی معاشرے کا مطالعہ کیا، اور اس نے اسرائیل کی ایک زبردست کمزوری کی پہچان کر لی۔ یحییٰ سنور نے سیکھا کہ اسرائیل اپنے لوگوں کا نقصان برداشت نہیں کر سکتا، خاص طور پر فوجیوں کو اگر قید میں رکھا جائے گا تو ان کی واپسی کے لیے وہ غیر معمولی حد تک جائے گا۔ سنور خود بھی ان 1000 فلسطینی قیدیوں میں شامل تھے جنہیں 2011 میں ایک قیدی فوجی تبادلہ میں اسرائیل نے رہا کیا تھا۔
سنور کے لیے، اسرائیل پر 7 اکتوبر کا حملہ اس مرکزی آپریشن کا ایک ہولناک پہلو ہو سکتا ہے، جس کا مقصد بڑی تعداد میں اسرائیلی لوگوں اور فوجیوں کو یرغمال بنا کر غزہ کی سرنگوں میں چھپا دینا تھا۔ جہاں وہ حماس کے رہنماؤں کے لیے انسانی ڈھال کا کام کر سکتا ہے۔
یرغمالیوں کو سامنے رکھ کر یحییٰ سنور کے پاس ایک طاقتور سودے بازی کا شاندار موقع تھا جس سے بڑی تعداد میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے حماس کے سینئر رہنماوں سمیت دیگر فلسطینی قیدیوں کی رہائی خریدی جا سکتی تھی۔ سنور کو یقین تھا کہ 7 اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل غزہ پر حملہ کرے گا اور وہ یرغمالیوں کی رہائی کو سامنے رکھ کر ختم کرا دیں گے۔
- کروڑوں ڈالرس کے بموں کی کوئی مقدار بھی حماس کو کمزور نہیں کر سکی:
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ یہ سرنگیں سیکڑوں کلومیٹر (میل) تک پھیلی ہوئی ہیں اور کچھ کی تو زمین کے اندر کئی منزلیں ہیں، جنہیں بلاسٹ ڈورس اور بوبی ٹریپس سے محفوظ رکھا گیا ہے۔ یہ تو طئے مانا جا رہا ہے کہ اگر اسرائیل حماس کے رہنماؤں کو تلاش کر لیتا ہے تو اس کا مطلب ان یرغمالیوں کے لیے تقریباً یقینی موت ہو گی جو ممکنہ طور پر انھیں گھیرے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کے ہاریٹز اخبار کے دیرینہ فوجی نمائندے آموس ہارل نے کہا کہ مقاصد بالکل متضاد ہیں۔ "یقینا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ حماس کو شکست دینے میں ایک سال لگے گا، اور ہم اس پر آگے بڑھ رہے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی اس بات کو یقینی نہیں بنا سکتا کہ یرغمالی زندہ رہیں گے۔" انہوں نے مزید کہا کہ یہاں تک کہ اگر اسرائیل کسی طرح سنور اور دیگر سرکردہ رہنماؤں کو ہلاک کر دیتا ہے، تو ماضی کی طرح حماس کے دیگر رہنما ان کی جگہ لیں گے۔ ہیرل کے مطابق، اسرائیل کو یہ جنگ جیتنے میں بہت مشکل پیش آئے گی۔
اسرائیل نے جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک تین یرغمالیوں کو کامیابی سے بازیاب کرایا ہے، جن میں سے سبھی زمین کے اوپر تھے، اور حماس کا کہنا ہے کہ کئی یرغمالی دیگر فضائی حملوں یا ناکام امدادی کارروائیوں میں مارے جا چکے ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے قید فلسطینیوں کے بدلے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت 100 سے زائد مغویوں کو رہا کیا گیا تھا۔
نتن یاہو کا کہنا ہے کہ فوجی دباؤ بالآخر تقریباً 100 یرغمالیوں کی رہائی کا باعث بنے گا، اور 30 دیگر کی باقیات بھی حاصل ہو جائیں گی۔
لیکن جنوری میں واضح ریمارکس میں، اسرائیل کے سابق اعلیٰ ترین جنرل اور نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے رکن، گیڈی آئزن کوٹ نے کہا ہے کہ اگر کوئی یہ تجویز کر رہا ہے کہ بقیہ یرغمالیوں کو جنگ بندی کے معاہدے کے بغیر رہا کیا جا سکتا ہے تو وہ فریب پھیلا رہا ہے۔
یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ حماس عارضی جنگ بندی کے لیے اپنا سب سے قیمتی ہتھیار (یرغمالی) چھوڑ دے گا۔ حماس نے اپنے رہنماؤں کے ہتھیار ڈالنے اور جلاوطنی میں جانے کے خیال کو پہلے ہی مسترد کر دیا ہے۔
سنور کے لیے، یہ بہتر ہے کہ وہ یرغمالیوں کے ساتھ زیر زمین رہیں اور دیکھیں کہ اس کی شرط پوری ہوتی ہے یا نہیں۔
- یہ کیسے ختم ہوگا؟
نتن یاہو کی حکومت پر یرغمالیوں کے خاندانوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ یرغمالیوں کے خاندانوں کو خوف ہے کہ وقت ختم ہو رہا ہے۔ غزہ جنگ کے حوالے سے ڈیموکریٹک کی تقسیم کی وجہ سے اسرائیل کے سب سے مضبوط اتحادی امریکی صدر جو بائیڈن نومبر میں ہونے والے انتخابات ہارنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ غزہ میں انسانی المیہ نے دنیا بھر میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ اس جنگ سے مشرق وسطیٰ میں علاقائی تشدد بھڑکنے کا خطرہ لاحق ہے۔
میز پر حماس کی ایک تجویز ہے جس میں یرغمالیوں کی زندہ واپسی کا امکان ہے۔ اس تجویز میں غزہ سے اسرائیل کے بتدریج انخلاء، طویل مدتی جنگ بندی اور تعمیر نو کے بدلے تمام اسیروں کی مرحلہ وار رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل پر سینکڑوں قیدیوں کو رہا کرنے کا دباؤ بھی ہے۔
حماس تقریباً یقینی طور پر غزہ پر قابض رہے گی اور فتح کی پریڈ بھی منعقد کر سکتی ہے۔ وقت کے ساتھ، نئے جنگجو بھرتی کر سکتی ہے، سرنگوں کو دوبارہ بنا سکتی ہے اور اپنے ہتھیاروں کو بھر سکتی ہے۔
حالانکہ حماس کے لیے یہ ایک انتہائی مہنگی فتح ہوگی، جس میں 30,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو گئے اور غزہ کے بیشتر حصے کی مکمل تباہی ہو چکی ہے۔
گزشتہ سال جنگ کے دوران فلسطینیوں میں ہونے والے ایک غیر معمولی سروے میں حماس کی حمایت میں اضافہ دیکھنے میں آیا، مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں 40 فیصد سے زیادہ فلسطینیوں نے اس گروپ کی حمایت کی۔
ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک کرائسس گروپ کے سینئر فلسطینی تجزیہ کار تہانی مصطفیٰ نے کہا کہ یہ حمایت صرف اس صورت میں بڑھے گی جب حماس غزہ کی طویل ناکہ بندی کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
دوسری جانب اگر نتن یاہو اپنی ناک کو بچانا چاہتے ہیں تو جنگ جاری رکھیں گے۔ لیکن فوج اس بات کا ضرور خیال رکھے گی کہ ان علاقوں میں حملوں سے گریز کیا جائے جہاں یرغمالیوں کو چھپائے جانے کا امکان ہے۔ جنگ شاید ہفتوں، مہینوں اور سالوں تک جاری رہے لیکن ایک دن ضرور آئے گا جس دن نتن یاہو یا ان کے جانشین کو اذیت ناک فیصلہ کرنا ہی پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں:
- رمضان کی آمد سے قبل غزہ جنگ بندی مذاکرات کوئی پیش رفت حاصل کرنے میں ناکام: مصر
- امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ
- اسرائیلی حملوں نے دس سال کی کوششوں کے بعد پیدا ہوئے جڑواں بچوں کو ماں سے چھین لیا
- غزہ میں اسرائیلی فوج کا ایک مرتبہ پھر امدادی ٹرک اور امداد کے متلاشیوں پر حملہ، متعدد افراد ہلاک
- اسرائیلی حراست میں فلسطینی خواتین کے ساتھ بدسلوکی، متاثرہ خاتون نبیلہ کا درد چھلکا