ETV Bharat / opinion

ماہ رمضان میں مسلم رہنماوں کی جوڈیشیل کسٹڈی میں موت یا قتل - Death in judicial custody

گزشتہ تین رمضان میں تین بڑے مسلم رہنماوں کی جوڈیشیل کسٹڈی میں موت واقع ہو چکی ہے۔ بہار کے سابق رکن پارلیمان شہاب الدین کا انتقال 19 رمضان اور اترپردیش کے سابق رکن اسمبلی مختار انصاری کا انتقال 18 رمضان کو ہوا، جبکہ اترپردیش کے ہی سابق رکن پارلیمنٹ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کا 24 رمضان کو گولی مار کر قتل کیا گیا۔ ای ٹی وی بھارت کے التمش عدیل کی خاص رپورٹ

from Shehab to Mukhtar, Death or killing of Muslim leaders in judicial custody during Ramadan
ماہ رمضان میں مسلم لیڈروں کا جوڈیشیئل کسٹڈی میں موت یا قتل
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 29, 2024, 3:30 PM IST

Updated : Mar 31, 2024, 11:55 AM IST

حیدرآباد: بھارت کی سیاست میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ کے برابر ہے اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمان کمیونٹی کا بھارتی سیاست کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کا وفادار بنا رہنا کہا جا سکتا ہے، مسلمانوں نے جن سیاسی جماعتوں پر اعتبار کیا وہ تو ان کا سیاسی استعمال کرتی رہی لیکن کبھی بھی ان مسلم سیاستدانوں نے مسلم سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش نہیں بلکہ ہمیشہ دوسری بڑی جماعتوں کی وفاداری کا ثبوت دیتے رہے اور ان ہی پارٹیوں کے انتخابی نشان پر جیت کر مسلم کمیونٹی کے لیے کچھ کام کرتے رہے۔

کانگریس پارٹی ہو، یوپی کی سماجودی پارٹی، بہوجن سماجوادی پارٹی، ممتا بنرجی کی ٹی ایم سی ہو یا پھر بہار کی لالو یادو کی آر جے ڈی ان جیسی ایسی بہت سی ریاستی اور قومی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں بڑے بڑے مسلم لیڈر رہے ہیں، جن کو ہر کمیونٹی سے پیار اور ووٹ بھی ملتا تھا، جس کی وجہ سے کسی دوسری جماعتوں کے لیڈروں کو ان کے خلاف انتخاب جیتنا ناممکن سا ہوجاتا تھا۔

ایسے ہی چند نام ریاست بہار اور اتردیش سے آتے ہیں جو عوام کے چہیتے تھے، جس کی وجہ سے وہ اپنی اپنی سیٹوں سے متعدد دفعہ الیکشن بھی جیتے لیکن ان کے دامن میں ایسے الزام بھی آئے جو انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے گئے۔ ان لیڈروں نے اپنے اوپر لگے داغ کو مٹانے کے لیے قانون اور عدلیہ پر اپنا اعتماد ظاہر کیا اور خود کو قانون کے حوالے بھی کردیا۔

جیل میں یہ لیڈران انڈر ٹرائل تھے اور کئی کیسز میں نچلی عدالتوں نے ان کے خلاف فیصلہ بھی سنا دیا تھا، اس کے باوجود وہ اعلیٰ عدالتوں میں انصاف کے لیے قانونی جنگ لڑتے رہے۔ کیونکہ انھیں پتہ تھا نچلی عدالتیں جو چاہے فیصلہ دے دیں لیکن بھارت کی اعلیٰ عدالتیں انصاف ضرور کریں گی۔ لیکن ان لیڈروں کو یہ علم نہیں تھا کہ انھیں ان اعلیٰ عدالتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا یا ان کی جوڈیشیل کسٹڈی میں ہی موت واقع ہوجائے گی۔

ڈاکٹر شہاب الدین (یکم مئی 2021 یعنی 19 رمضان 1442)

Shehabuddin
ڈاکٹر شہاب الدین (یکم مئی 2021 یعنی 19 رمضان 1442)

ان لیڈروں میں سب سے پہلا نام سیوان کے ڈاکٹر شہاب الدین کا آتا ہے، جو یکم مئی 2021 یعنی 19 رمضان 1442 کو دہلی کے ایک ہسپتال میں اللہ کو پیارے ہوگئے اور ان کی موت کی وجہ کورونا انفیکشن بتایا گیا۔

شہاب الدین تہاڑ جیل میں کسٹڈی میں تھے اور طبیعت زیادہ خراب ہونے پر انہیں دین دیال اپادھیائے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا لیکن ان کے رشتہ داروں کا الزام تھا کہ ان کا علاج صحیح طریقے سے نہیں ہورہا ہے۔ ان کے رشتہ داروں نے بہترعلاج کے لیے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسپتال میں بہتر علاج کے لیے ہدایت بھی دی لیکن انتظامیہ نے انہیں بہترعلاج کے لیے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف انڈین میڈیکل سائنس (ایمس) میں یا رام منوہر لوہیا اسپتال میں داخل نہیں کرایا، بالآخر ان کی کورونا سے موت واقع ہوگئی۔

اس کے بعد لواحقین نے ان کی تدفین کے لیے میت سیوان لانے کے لیے حکومت سے مطالبہ کیا تھا تاہم کورونا کی گائیڈ لائنز کی وجہ سے لاش بہار نہیں لائی جاسکی، جس کی وجہ سے انکی تدفین دہلی کے ہی ایک قبرستان میں کی گئی۔

شہاب الدین 10 مئی 1967 کو سیوان ضلع کے پرتاپ پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تا اعلیٰ تعلیم بہار میں ہی ہوئی۔ انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی، ان کا ایک بیٹا اسامہ شہاب اور دو بیٹیاں ہیں۔ ڈاکٹر شہاب الدین 1990 میں محض 23 سال کی کم عمری میں بہار قانون ساز اسمبلی کے رکن بن گئے تھے۔

عتیق احمد (15 اپریل 2023 یعنی 24 رمضان 1444)

Ateequ Ahmad
عتیق احمد (15 اپریل 2023 یعنی 24 رمضان 1444)

اسی فہرست میں دوسرا نام اترپردیش کے عتیق احمد کا آتا ہے جن کو 15 اپریل 2023 یعنی 24 رمضان 1444 کو پریاگ راج میں میڈیکل کالج کے قریب پولیس حراست میں ہونے کے باوجود فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف بھی جوڈیشیل کسٹڈی میں تھے اور ان دونوں کو طبی معائنے کے لیے لے جایا جارہا تھا کی اسپتال میں داخل ہونے سے پہلے پولیس کی نگرانی میں میڈیا کیمروں کے سامنے کچھ شرپسندوں نے زیرو پوائنٹ شوٹ کرکے انھیں ہلاک کردیا۔

عتیق احمد کا سیاسی سفر 1989 میں شروع ہوا جب وہ الہ آباد ویسٹ سے بطور آزاد امیدوار رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس کے بعد عتیق احمد نے سماجوادی پارٹی میں شمولیت اختیار کی، تین سال بعد وہ اپنا دل پارٹی میں شامل ہوگئے۔ پھر وہ ایس پی میں واپس آئے اور 2004 میں پھول پور لوک سبھا حلقہ سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوگئے۔ یہ سیٹ کبھی بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے پاس تھی۔ عتیق احمد رکن پارلیمنٹ اور پانچ بار ایم ایل اے رہے۔

2017 میں عتیق احمد کو پولیس نے مختلف الزامات میں گرفتار کیا۔ مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق عتیق احمد کو قتل، اقدام قتل، مجرمانہ دھمکیاں اور حملہ کے 70 سے زائد مقدمات کا سامنا تھا۔ ماوراء عدالت قتل کیے جانے کے بعد متعدد سیاسی و سماجی تنظیموں نے یوپی کے لا قانونیت پر سوال کھڑے کیے تھے اور عدالت سے اس پر از خود نوٹس لینے کی اپیل بھی کی۔

مختار انصاری (28 مارچ 2024 یعنی 18 رمضان 1445)

Mukhtar Ansari
مختار انصاری (28 مارچ 2024 یعنی 18 رمضان 1445)

اسی فہرست میں تیسرا نام مختار انصاری کا آتا ہے، جن کی بھی ماہ رمضان میں پولیس کسٹڈی میں موت واقع ہوگئی۔ دراصل 28 مارچ 2024 یعنی 18 رمضان 1445 بروز جمعرات کی رات میں مختار انصاری کی طبیعت ناساز ہونے کے بعد باندا جیل سے درگاوتی اسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں وہ نبرد آزما نہ ہوسکے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔

میڈیا رپورٹ میں مختار انصاری کی موت کی وجہ دل کا دورہ پڑنا بتایا گیا ہے جبکہ کچھ دن قبل ہی مختار انصاری نے جیل انتظامیہ پر کھانے میں سلو پوائزن یعنی زہریلی اشیاء دینے کی شکایت کی تھی۔ ان کے اہل خانہ نے بھی شکایت کی تھی کہ مختار انصاری کے کھانے میں زہریلی اشیاء ملائی جارہی ہے اور ان کو کسی طرح سے مارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مختار انصاری یوپی کا وہ مسلم لیڈر تھا جس کو ہر طبقے سے ووٹ ملتا تھا، اسی لیے اسے غریبوں کا مسیحا بھی کہا جاتا تھا۔ مختار انصاری کا تعلق ایسے خاندان سے تھا جن کے نانا اور دادا دونوں مجاہد آزادی تھے۔ مختار انصاری پہلی بار 1996 میں الیکشن جیت کر اسمبلی پہنچے۔ اس کے بعد انہوں نے 2002، 2007، 2012 اور 2017 میں مسلسل کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے جیل میں رہتے ہوئے بھی پانچ میں سے تین انتخابات جیتے تھے۔

مختار انصاری کے خلاف پہلا مقدمہ 1988 میں درج کیا گیا۔ اس کے بعد 2005 میں بی جے پی ایم ایل اے کرشنانند رائے قتل کے الزام میں انھیں گرفتار کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی ان پر مختلف کیسز درج تھے اور انڈر ٹرائل بھی تھے، یہاں تک کی نچلی عدالتوں نے انھیں اب تک سات مقدمات میں 22 سال قید کی سزا اور ایک کیس میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

حیدرآباد: بھارت کی سیاست میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ کے برابر ہے اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمان کمیونٹی کا بھارتی سیاست کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کا وفادار بنا رہنا کہا جا سکتا ہے، مسلمانوں نے جن سیاسی جماعتوں پر اعتبار کیا وہ تو ان کا سیاسی استعمال کرتی رہی لیکن کبھی بھی ان مسلم سیاستدانوں نے مسلم سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش نہیں بلکہ ہمیشہ دوسری بڑی جماعتوں کی وفاداری کا ثبوت دیتے رہے اور ان ہی پارٹیوں کے انتخابی نشان پر جیت کر مسلم کمیونٹی کے لیے کچھ کام کرتے رہے۔

کانگریس پارٹی ہو، یوپی کی سماجودی پارٹی، بہوجن سماجوادی پارٹی، ممتا بنرجی کی ٹی ایم سی ہو یا پھر بہار کی لالو یادو کی آر جے ڈی ان جیسی ایسی بہت سی ریاستی اور قومی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں بڑے بڑے مسلم لیڈر رہے ہیں، جن کو ہر کمیونٹی سے پیار اور ووٹ بھی ملتا تھا، جس کی وجہ سے کسی دوسری جماعتوں کے لیڈروں کو ان کے خلاف انتخاب جیتنا ناممکن سا ہوجاتا تھا۔

ایسے ہی چند نام ریاست بہار اور اتردیش سے آتے ہیں جو عوام کے چہیتے تھے، جس کی وجہ سے وہ اپنی اپنی سیٹوں سے متعدد دفعہ الیکشن بھی جیتے لیکن ان کے دامن میں ایسے الزام بھی آئے جو انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے گئے۔ ان لیڈروں نے اپنے اوپر لگے داغ کو مٹانے کے لیے قانون اور عدلیہ پر اپنا اعتماد ظاہر کیا اور خود کو قانون کے حوالے بھی کردیا۔

جیل میں یہ لیڈران انڈر ٹرائل تھے اور کئی کیسز میں نچلی عدالتوں نے ان کے خلاف فیصلہ بھی سنا دیا تھا، اس کے باوجود وہ اعلیٰ عدالتوں میں انصاف کے لیے قانونی جنگ لڑتے رہے۔ کیونکہ انھیں پتہ تھا نچلی عدالتیں جو چاہے فیصلہ دے دیں لیکن بھارت کی اعلیٰ عدالتیں انصاف ضرور کریں گی۔ لیکن ان لیڈروں کو یہ علم نہیں تھا کہ انھیں ان اعلیٰ عدالتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا یا ان کی جوڈیشیل کسٹڈی میں ہی موت واقع ہوجائے گی۔

ڈاکٹر شہاب الدین (یکم مئی 2021 یعنی 19 رمضان 1442)

Shehabuddin
ڈاکٹر شہاب الدین (یکم مئی 2021 یعنی 19 رمضان 1442)

ان لیڈروں میں سب سے پہلا نام سیوان کے ڈاکٹر شہاب الدین کا آتا ہے، جو یکم مئی 2021 یعنی 19 رمضان 1442 کو دہلی کے ایک ہسپتال میں اللہ کو پیارے ہوگئے اور ان کی موت کی وجہ کورونا انفیکشن بتایا گیا۔

شہاب الدین تہاڑ جیل میں کسٹڈی میں تھے اور طبیعت زیادہ خراب ہونے پر انہیں دین دیال اپادھیائے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا لیکن ان کے رشتہ داروں کا الزام تھا کہ ان کا علاج صحیح طریقے سے نہیں ہورہا ہے۔ ان کے رشتہ داروں نے بہترعلاج کے لیے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسپتال میں بہتر علاج کے لیے ہدایت بھی دی لیکن انتظامیہ نے انہیں بہترعلاج کے لیے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف انڈین میڈیکل سائنس (ایمس) میں یا رام منوہر لوہیا اسپتال میں داخل نہیں کرایا، بالآخر ان کی کورونا سے موت واقع ہوگئی۔

اس کے بعد لواحقین نے ان کی تدفین کے لیے میت سیوان لانے کے لیے حکومت سے مطالبہ کیا تھا تاہم کورونا کی گائیڈ لائنز کی وجہ سے لاش بہار نہیں لائی جاسکی، جس کی وجہ سے انکی تدفین دہلی کے ہی ایک قبرستان میں کی گئی۔

شہاب الدین 10 مئی 1967 کو سیوان ضلع کے پرتاپ پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تا اعلیٰ تعلیم بہار میں ہی ہوئی۔ انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی، ان کا ایک بیٹا اسامہ شہاب اور دو بیٹیاں ہیں۔ ڈاکٹر شہاب الدین 1990 میں محض 23 سال کی کم عمری میں بہار قانون ساز اسمبلی کے رکن بن گئے تھے۔

عتیق احمد (15 اپریل 2023 یعنی 24 رمضان 1444)

Ateequ Ahmad
عتیق احمد (15 اپریل 2023 یعنی 24 رمضان 1444)

اسی فہرست میں دوسرا نام اترپردیش کے عتیق احمد کا آتا ہے جن کو 15 اپریل 2023 یعنی 24 رمضان 1444 کو پریاگ راج میں میڈیکل کالج کے قریب پولیس حراست میں ہونے کے باوجود فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف بھی جوڈیشیل کسٹڈی میں تھے اور ان دونوں کو طبی معائنے کے لیے لے جایا جارہا تھا کی اسپتال میں داخل ہونے سے پہلے پولیس کی نگرانی میں میڈیا کیمروں کے سامنے کچھ شرپسندوں نے زیرو پوائنٹ شوٹ کرکے انھیں ہلاک کردیا۔

عتیق احمد کا سیاسی سفر 1989 میں شروع ہوا جب وہ الہ آباد ویسٹ سے بطور آزاد امیدوار رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس کے بعد عتیق احمد نے سماجوادی پارٹی میں شمولیت اختیار کی، تین سال بعد وہ اپنا دل پارٹی میں شامل ہوگئے۔ پھر وہ ایس پی میں واپس آئے اور 2004 میں پھول پور لوک سبھا حلقہ سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوگئے۔ یہ سیٹ کبھی بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے پاس تھی۔ عتیق احمد رکن پارلیمنٹ اور پانچ بار ایم ایل اے رہے۔

2017 میں عتیق احمد کو پولیس نے مختلف الزامات میں گرفتار کیا۔ مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق عتیق احمد کو قتل، اقدام قتل، مجرمانہ دھمکیاں اور حملہ کے 70 سے زائد مقدمات کا سامنا تھا۔ ماوراء عدالت قتل کیے جانے کے بعد متعدد سیاسی و سماجی تنظیموں نے یوپی کے لا قانونیت پر سوال کھڑے کیے تھے اور عدالت سے اس پر از خود نوٹس لینے کی اپیل بھی کی۔

مختار انصاری (28 مارچ 2024 یعنی 18 رمضان 1445)

Mukhtar Ansari
مختار انصاری (28 مارچ 2024 یعنی 18 رمضان 1445)

اسی فہرست میں تیسرا نام مختار انصاری کا آتا ہے، جن کی بھی ماہ رمضان میں پولیس کسٹڈی میں موت واقع ہوگئی۔ دراصل 28 مارچ 2024 یعنی 18 رمضان 1445 بروز جمعرات کی رات میں مختار انصاری کی طبیعت ناساز ہونے کے بعد باندا جیل سے درگاوتی اسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں وہ نبرد آزما نہ ہوسکے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔

میڈیا رپورٹ میں مختار انصاری کی موت کی وجہ دل کا دورہ پڑنا بتایا گیا ہے جبکہ کچھ دن قبل ہی مختار انصاری نے جیل انتظامیہ پر کھانے میں سلو پوائزن یعنی زہریلی اشیاء دینے کی شکایت کی تھی۔ ان کے اہل خانہ نے بھی شکایت کی تھی کہ مختار انصاری کے کھانے میں زہریلی اشیاء ملائی جارہی ہے اور ان کو کسی طرح سے مارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مختار انصاری یوپی کا وہ مسلم لیڈر تھا جس کو ہر طبقے سے ووٹ ملتا تھا، اسی لیے اسے غریبوں کا مسیحا بھی کہا جاتا تھا۔ مختار انصاری کا تعلق ایسے خاندان سے تھا جن کے نانا اور دادا دونوں مجاہد آزادی تھے۔ مختار انصاری پہلی بار 1996 میں الیکشن جیت کر اسمبلی پہنچے۔ اس کے بعد انہوں نے 2002، 2007، 2012 اور 2017 میں مسلسل کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے جیل میں رہتے ہوئے بھی پانچ میں سے تین انتخابات جیتے تھے۔

مختار انصاری کے خلاف پہلا مقدمہ 1988 میں درج کیا گیا۔ اس کے بعد 2005 میں بی جے پی ایم ایل اے کرشنانند رائے قتل کے الزام میں انھیں گرفتار کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی ان پر مختلف کیسز درج تھے اور انڈر ٹرائل بھی تھے، یہاں تک کی نچلی عدالتوں نے انھیں اب تک سات مقدمات میں 22 سال قید کی سزا اور ایک کیس میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

Last Updated : Mar 31, 2024, 11:55 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.