ETV Bharat / literature

ضیا فاروقی کی نقوش کانپور کے نام سے ادبی مجموعہ منظر عام پر ایا - Book Launch Ceremony

Book Launch Ceremony In Kanpur بے شمار مقالوں اور مضامین کے مصنف، ادیب و شاعر ضیا فاروقی اپنی نئی کتاب نقوش کانپورکو منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ اس کتاب کا رسم اجراء فیض عام انٹر کالج میں سید ابوالبرکات نظمی صاحب کی صدارت میں ہوا۔

ضیا فاروقی کی نقوش کانپور کے نام سے ادبی مجموعہ منظر عام پر ایا
ضیا فاروقی کی نقوش کانپور کے نام سے ادبی مجموعہ منظر عام پر ایا (etv bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : May 17, 2024, 11:52 AM IST

ضیا فاروقی کی نقوش کانپور کے نام سے ادبی مجموعہ منظر عام پر ایا (etv bharat)

کانپور:ضیا فاروقی کا آبائی گاوں سنڈیلا ہے جو لکھنو کے قریب 40 کلومیٹر دور ہے۔ ضیا فاروقی کم عمری میں 1960 میں کانپور تشریف لائے۔یہیں تعلیم حاصل کی۔ کئی ادبی گھرانوں سے ان کا تعلق رہا۔ اس وقت کی تمام اردو داں متحرک لوگوں سے اپ کی شناسائی رہی، تمام تحریکوں سے وابستگی بھی تمام شعری نشست مقالہ نگاری کے استادوں کے بیچ میں ان کا اٹھنا بیٹھنارہا۔

صرف اردو ادب ہی نہیں صوفیائے کرام کے ساتھ بھی تصوف کی منازل کو طے کرنا اور ان کی پرتوں کو کھول کھول کر سمجھنا بھی ان کی زندگی کا حصہ رہا ہے۔ نقوش کانپور میں ضیا فاروقی نے اپنے تمام وہ احباب جن کی صحبت میں ان کی ثناسائی رہی یا جن تحریکوں، مصنفوں اور ادیبوں نے ان کو متاثر کیا ان سے انہوں نے کچھ سیکھا ان سب کا ذکر نقوش کانپور کتاب میں کیا ہے۔

ضیا فاروقی نے نقوش کانپور میں صرف مسلم ہی نہیں غیر مسلم اردوداں کو بھی شامل کیا ہے اور ان کا بھی ذکر ان کے اوصاف کے مطابق ان کا حق ادا کیا ہے۔ ضیا فاروقی نے اپنی کتاب نقوش کانپور میں تمام وہ شعراء کرام جن کے نام گردالود ہو گئے یا جن کو لوگوں نے اپنے ذہن سے زائل کر دیا۔ ان سب کو نقوس کانپور کتاب میں یکجا کر دیا جو بڑا کمال درجے کی بات ہے۔تمام اردو داں ، طبقہ علمائے کرام سے لے کے سماج میں اثر رکھنے والے خدمت گاروں کو بھی انہوں نے ان کی خوبیوں کے ساتھ نقوش کانپور کتاب میں درج کیا ہے اور کسی کے ساتھ بھی مبالغہ ارائی نہیں کی ہے نہ ہی حق تلفی کی ہے۔

ان کی صفات کو جو انہوں نے سمجھا ہے ہو بہو درج کرنے کی کوشش کی ہے۔ضیا فاروقی کا مطالعہ ادب میں بہت وسیع ہے ۔انھوں نے قدیم کلاسیکی ادب کو بھی پڑھا ہے اور جدید ادب سے بھی آشنا ہیں ۔ کاغز قلم سے بھی ان کا رشتہ بہت پرانا ہے ۔ اس حوالے سے انھوں نے مختلف جہات میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں ۔

ان کی اب تک دس کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں افسانوی مجموعہ بھی ہے اور تنقیدی اور تحقیقی کتابیں بھی ہیں ۔ان کی تنقیدی اور تحقیقی ژروف نگاہی کا ثبوت جہاں وہ تحقیقی ۔تنقیدی مضامین ہیں جو کتابی شکل میں موجود ہیں یا گاہے گاہے شائع ہوتے رہتے ہیں وہیں سہا مجددی پر ان کا مونوگرآف بھی ہے ۔یہ مختصر سا موںوگراف پچھلی صدی کے نصف اول کے ایک ایسے کوتاہ قد مگر بالغ نظر ادیب اور شاعر کے شخصی اور ادبی کوآئف پر مبنی ہے
ضیا فاروقی نے کہاکہ نقوش کانپور میں کانپور کی ہر وہ جگہ چاہے وہ کسی کا گھر کا انگن ہو یا ڈرائنگ روم یا کوئی سوسائٹی کا حال یا لائبریری یا خانقاہ جہاں بھی ادبی محفل سجتی تھی۔ وہاں ضیا فاروقی کا آنا جانا ہوتا تھا۔ ان سب کا ذکر نقوش کانپور کتاب میں انہوں نے کیا ہے۔ کانپور کی مشہور درگاہ حضرت دادا میاں بیکن گنج میں جہاں پر ادبی نشست ، محفل سماع اج بھی اراستہ ہوتی ہیں جو سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے جس میں مرحوم علامہ ثاقب کانپوری جو ایک بڑے شاعر بھی ہیں۔

خانقاہ کے سجادہ نشین بھی تھے انہوں نے اردو ادب کو بہت فروغ دیا ہے ۔ نقوش کانپور کتاب میں ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ علامہ ثاقب کانپوری کے تین بیٹے جنہوں نے ادبی دنیا میں اپنے اپنے مقام کو پہچانوایا ہے جس میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ابوالخیر کشفی، کانپور کے حلیم مسلم ڈگری کالج کے پرنسپل ابو الحسنات حقی اور خانقاہ کے نائب سجادہ نشین سید ابوالبرکات نظمی جو سماجی اور سیاسی حیثیت کے ساتھ ساتھ شاعر بھی ہیں انہوں نے نقوس کانپور کتاب کی رسم اجرا کی نشست کی صدارت بھی کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ضیا فاروقی شاعری میں بھی کئی محاذوں پر سرگرم ہیں۔ ان کی ایک بڑی شناخت "مثنوی کان٘پور نامہ " ہے جس کے ذریعہ انھوں نے شہر کانپور کی ڈھائی سو سآلہ ادبی تآریخ کو مثنوی کا پیرہن عطا کیا ۔بقول سید ابوالبرکات نظمی کے ضیا فاروقی کی اس تصنیف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں ان تمام ادیبوں ۔ شاعروں اور علمائے کرام کے نام یکجا ہو گئے ہیں جن کا تعلق کانپور سے رہا ہے ۔کسی ایک جگہ اتنی معلومات کانپور کے بارے میں یکجا ہو جائیں یہ بڑی بات ہے ۔

ضیا فاروقی روڈ ویز میں ملازمت کرتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تقریبا 20 سال سے وہ اب بھوپال میں رہتے ہیں۔ وہاں اردو ادب کو تقویت دے رہے ہیں ۔ وہاں کی اردو اکیڈمی کے سرگرم کارکن ہیں اور کئی تنظیموں سے وابستہ ہیں موجودہ وقت میں وہ بھوپال کی شان ہیں لیکن کانپور میں ان کا دل آج بھی لگتا ہے یا یوں کہیں کہ ان کا دل ہی کانپور ہے ۔

یہ بھی پڑھیں:جہاں کہیں صحابہؓ کی عظمت کا تذکرہ ہوگا، مولانا عبدالعلیم فاروقیؒ کی خدمات کو ضرور یاد کیا جائے گا - Maulana Abdul Aleem Farooqi

ضیا فاروقی کی زبآن سلیس آور ان کے اشعار میں روانی ہے۔ضیا فاروقی کی شاعری خود گواہی دیتی ہے کہ وہ ہمارے عہد کے ایک اہم اورنرم گفتار شاعر ہیں جن پربہت کچھ ابھی لکھا جانا چاہئے۔ خصوصاّ ان کی نظمیں اپنے متن اور میعار کے اعتبار سے یقیناٗ ایسی ہیں جنھیں ادب عالیہ میں نمایاں مقام ملنا چاہئے ۔اس کے علاوہ ادب کے مختلف میدانوں میں انہوں نے جونقوش ثبت کئے ہیں ان پر ابھی سیرحاصل گفتگو ادب کے سنجیدہ ناقدین پر قرض ہے۔

ضیا فاروقی کی نقوش کانپور کے نام سے ادبی مجموعہ منظر عام پر ایا (etv bharat)

کانپور:ضیا فاروقی کا آبائی گاوں سنڈیلا ہے جو لکھنو کے قریب 40 کلومیٹر دور ہے۔ ضیا فاروقی کم عمری میں 1960 میں کانپور تشریف لائے۔یہیں تعلیم حاصل کی۔ کئی ادبی گھرانوں سے ان کا تعلق رہا۔ اس وقت کی تمام اردو داں متحرک لوگوں سے اپ کی شناسائی رہی، تمام تحریکوں سے وابستگی بھی تمام شعری نشست مقالہ نگاری کے استادوں کے بیچ میں ان کا اٹھنا بیٹھنارہا۔

صرف اردو ادب ہی نہیں صوفیائے کرام کے ساتھ بھی تصوف کی منازل کو طے کرنا اور ان کی پرتوں کو کھول کھول کر سمجھنا بھی ان کی زندگی کا حصہ رہا ہے۔ نقوش کانپور میں ضیا فاروقی نے اپنے تمام وہ احباب جن کی صحبت میں ان کی ثناسائی رہی یا جن تحریکوں، مصنفوں اور ادیبوں نے ان کو متاثر کیا ان سے انہوں نے کچھ سیکھا ان سب کا ذکر نقوش کانپور کتاب میں کیا ہے۔

ضیا فاروقی نے نقوش کانپور میں صرف مسلم ہی نہیں غیر مسلم اردوداں کو بھی شامل کیا ہے اور ان کا بھی ذکر ان کے اوصاف کے مطابق ان کا حق ادا کیا ہے۔ ضیا فاروقی نے اپنی کتاب نقوش کانپور میں تمام وہ شعراء کرام جن کے نام گردالود ہو گئے یا جن کو لوگوں نے اپنے ذہن سے زائل کر دیا۔ ان سب کو نقوس کانپور کتاب میں یکجا کر دیا جو بڑا کمال درجے کی بات ہے۔تمام اردو داں ، طبقہ علمائے کرام سے لے کے سماج میں اثر رکھنے والے خدمت گاروں کو بھی انہوں نے ان کی خوبیوں کے ساتھ نقوش کانپور کتاب میں درج کیا ہے اور کسی کے ساتھ بھی مبالغہ ارائی نہیں کی ہے نہ ہی حق تلفی کی ہے۔

ان کی صفات کو جو انہوں نے سمجھا ہے ہو بہو درج کرنے کی کوشش کی ہے۔ضیا فاروقی کا مطالعہ ادب میں بہت وسیع ہے ۔انھوں نے قدیم کلاسیکی ادب کو بھی پڑھا ہے اور جدید ادب سے بھی آشنا ہیں ۔ کاغز قلم سے بھی ان کا رشتہ بہت پرانا ہے ۔ اس حوالے سے انھوں نے مختلف جہات میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں ۔

ان کی اب تک دس کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں افسانوی مجموعہ بھی ہے اور تنقیدی اور تحقیقی کتابیں بھی ہیں ۔ان کی تنقیدی اور تحقیقی ژروف نگاہی کا ثبوت جہاں وہ تحقیقی ۔تنقیدی مضامین ہیں جو کتابی شکل میں موجود ہیں یا گاہے گاہے شائع ہوتے رہتے ہیں وہیں سہا مجددی پر ان کا مونوگرآف بھی ہے ۔یہ مختصر سا موںوگراف پچھلی صدی کے نصف اول کے ایک ایسے کوتاہ قد مگر بالغ نظر ادیب اور شاعر کے شخصی اور ادبی کوآئف پر مبنی ہے
ضیا فاروقی نے کہاکہ نقوش کانپور میں کانپور کی ہر وہ جگہ چاہے وہ کسی کا گھر کا انگن ہو یا ڈرائنگ روم یا کوئی سوسائٹی کا حال یا لائبریری یا خانقاہ جہاں بھی ادبی محفل سجتی تھی۔ وہاں ضیا فاروقی کا آنا جانا ہوتا تھا۔ ان سب کا ذکر نقوش کانپور کتاب میں انہوں نے کیا ہے۔ کانپور کی مشہور درگاہ حضرت دادا میاں بیکن گنج میں جہاں پر ادبی نشست ، محفل سماع اج بھی اراستہ ہوتی ہیں جو سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے جس میں مرحوم علامہ ثاقب کانپوری جو ایک بڑے شاعر بھی ہیں۔

خانقاہ کے سجادہ نشین بھی تھے انہوں نے اردو ادب کو بہت فروغ دیا ہے ۔ نقوش کانپور کتاب میں ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ علامہ ثاقب کانپوری کے تین بیٹے جنہوں نے ادبی دنیا میں اپنے اپنے مقام کو پہچانوایا ہے جس میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ابوالخیر کشفی، کانپور کے حلیم مسلم ڈگری کالج کے پرنسپل ابو الحسنات حقی اور خانقاہ کے نائب سجادہ نشین سید ابوالبرکات نظمی جو سماجی اور سیاسی حیثیت کے ساتھ ساتھ شاعر بھی ہیں انہوں نے نقوس کانپور کتاب کی رسم اجرا کی نشست کی صدارت بھی کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ضیا فاروقی شاعری میں بھی کئی محاذوں پر سرگرم ہیں۔ ان کی ایک بڑی شناخت "مثنوی کان٘پور نامہ " ہے جس کے ذریعہ انھوں نے شہر کانپور کی ڈھائی سو سآلہ ادبی تآریخ کو مثنوی کا پیرہن عطا کیا ۔بقول سید ابوالبرکات نظمی کے ضیا فاروقی کی اس تصنیف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں ان تمام ادیبوں ۔ شاعروں اور علمائے کرام کے نام یکجا ہو گئے ہیں جن کا تعلق کانپور سے رہا ہے ۔کسی ایک جگہ اتنی معلومات کانپور کے بارے میں یکجا ہو جائیں یہ بڑی بات ہے ۔

ضیا فاروقی روڈ ویز میں ملازمت کرتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تقریبا 20 سال سے وہ اب بھوپال میں رہتے ہیں۔ وہاں اردو ادب کو تقویت دے رہے ہیں ۔ وہاں کی اردو اکیڈمی کے سرگرم کارکن ہیں اور کئی تنظیموں سے وابستہ ہیں موجودہ وقت میں وہ بھوپال کی شان ہیں لیکن کانپور میں ان کا دل آج بھی لگتا ہے یا یوں کہیں کہ ان کا دل ہی کانپور ہے ۔

یہ بھی پڑھیں:جہاں کہیں صحابہؓ کی عظمت کا تذکرہ ہوگا، مولانا عبدالعلیم فاروقیؒ کی خدمات کو ضرور یاد کیا جائے گا - Maulana Abdul Aleem Farooqi

ضیا فاروقی کی زبآن سلیس آور ان کے اشعار میں روانی ہے۔ضیا فاروقی کی شاعری خود گواہی دیتی ہے کہ وہ ہمارے عہد کے ایک اہم اورنرم گفتار شاعر ہیں جن پربہت کچھ ابھی لکھا جانا چاہئے۔ خصوصاّ ان کی نظمیں اپنے متن اور میعار کے اعتبار سے یقیناٗ ایسی ہیں جنھیں ادب عالیہ میں نمایاں مقام ملنا چاہئے ۔اس کے علاوہ ادب کے مختلف میدانوں میں انہوں نے جونقوش ثبت کئے ہیں ان پر ابھی سیرحاصل گفتگو ادب کے سنجیدہ ناقدین پر قرض ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.