ETV Bharat / literature

آم پر شاندار اردو شاعری - Mango Festival in Lucknow

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 13, 2024, 7:38 PM IST

آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ بچے سے لیکر بوڑھے شخص تک ہر کوئی آم کا شوقین ہوتا ہے۔ اترپردیش سمیت مختلف ریاستوں میں مینگو فیسٹیول منعقد کیے جارہے ہیں جن میں مختلف اقسام کے آم دستیاب ہیں۔

Etv Bharat
Etv Bharat (Etv Bharat)

لکھنو: آم کا موسم شباب پر ہے اور اس وقت آم کے سبھی اقسام بازار میں موجود ہے جس کے ذائقے سے لوگ خود لطف اٹھا رہے ہیں۔ آم کا ذکر ہو اور لکھنو نہ آئے ایسا ممکن نہیں۔ لکھنو نے دسہیری آم دنیا بھر میں متعارف کرایا جس کے ذائقے کے ملک و بیرون ملک میں مداح پائے جا رہے ہیں۔ مینگو مین کے نام سے مشہور ملیح آباد کے حاجی کلیم اللہ نے آم کے تقریبا تین سو اقسام بنا دیے ایسے میں لکھنو کا ذکر اور اردو شاعری میں آم پر نظم بے حد ضروری ہو جاتی ہے۔ لہذا آم کھانے کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کا بھی مزہ لیجیے۔

URDU POETRY ON MANGO (Etv bharat)



معروف شاعر حنا رضوی کی نظم پیش خدمت ہے۔


آم کو بس نام سے ہی عام کہتے ہیں جناب
ورنہ ایسا خاص ہے ملتا نہیں جس کا جواب

شاہ کہتے ہیں پھلوں کا اس کو سب اہل قلم
موسم گرما ہے اس کی وجہ سے ہی محترم
لیچی اور تربوز کا گرمی میں ہے اپنا مقام
ہے مگر سارے پھلوں میں سب سے افضل صرف آم

ایسی لذت ہے کہ مانو پھل نہیں پکوان ہے
تاجدار ذائقہ ہے شان دسترخوان ہے
اتنی قسمیں ہیں کہ کس کا ذکر ہو کس کا نہیں
ناز ہم کو آم کی ہر قسم پر ہے بالیقین
تخمی ہو کلمی میں بھی بہتر کی بحثیں خوب ہیں

عاشقان آم کے بس عام ہی محبوب ہیں
کوئی چوسنے پر فدا کوئی سفیدے پر نثار
دوڑ ہو آموں کی تو لنگڑا بھی ہوگا شہ سوار
ہر بہاری مالدہ کا نام کرتا ہے بلند

ممبئی والوں کی ہے الفونسو پہلی پسند
یوں ملیح آباد کے آموں کی ہے لذت کمال
نیوتنی بلہور کے بھی آم ہیں کچھ بے مثال
سب کو ہے اپنی طرف کے ام پر بے حد غرور
دوڑ میں شامل ہیں لکھنوا دسہیری بھی حضور

آم کی ہر قسم کا اپنا الگ ہے ذائقہ
رنگ میں کچھ سرخ کوئی زرد ہے کوئی ہرا
کوئی تھوڑا ترش اور کوئی ہے میٹھا بے حساب
ہر کوئی کرتا ہے اپنے ذائقے سے انتخاب
ہاں مگر بچپن میں آموں کا مزہ ہی اور تھا
آم بہتر تھے نہ جانے یا وہ بہتر دور تھا
ہم چھری کانٹے سے کھانے کی نفاست سے تھے دور

چوس کر ہر آم کھانے کا تھا ہم سب میں فطور
اف وہ کچے کیریاں چھڑکا ہوا ان پر نمک
دیکھ کر آنکھوں میں بھر جاتی تھی ہم سب کے چمک
آم کو پیڑوں پہ چڑھ کے کچے پکے توڑنا
اپنے ہی باغوں سے چوری کر کے گھر کو دوڑنا
بالٹی میں ڈھیر سے پانی میں ڈوبے آم ہائے
کس نے کتنے کھا لیے گنتی کوئی کیسے بتائے

بیٹھ کر چھوٹے بڑے سب ساتھ میں کھاتے تھے آم
آم کی محفل سجے تو کیا دوپہری کیسی شام
آم تو روٹی پراٹھے سے بھی کھا لیتے تھے ہم
اور پھر گٹھلی کا بھی پورا مزہ لیتے تھے ہم
آم کے قصے ہینا کوئی کرے کیسے بیاں
سب کے ماضی میں ہے آموں کی الگ ایک داستاں

آم ایک دستور ہے ایک رسم ایک تیوہار ہے
سب مناتے ہیں اسے یہ پھل نہیں ہے پیار ہے

لکھنو: آم کا موسم شباب پر ہے اور اس وقت آم کے سبھی اقسام بازار میں موجود ہے جس کے ذائقے سے لوگ خود لطف اٹھا رہے ہیں۔ آم کا ذکر ہو اور لکھنو نہ آئے ایسا ممکن نہیں۔ لکھنو نے دسہیری آم دنیا بھر میں متعارف کرایا جس کے ذائقے کے ملک و بیرون ملک میں مداح پائے جا رہے ہیں۔ مینگو مین کے نام سے مشہور ملیح آباد کے حاجی کلیم اللہ نے آم کے تقریبا تین سو اقسام بنا دیے ایسے میں لکھنو کا ذکر اور اردو شاعری میں آم پر نظم بے حد ضروری ہو جاتی ہے۔ لہذا آم کھانے کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کا بھی مزہ لیجیے۔

URDU POETRY ON MANGO (Etv bharat)



معروف شاعر حنا رضوی کی نظم پیش خدمت ہے۔


آم کو بس نام سے ہی عام کہتے ہیں جناب
ورنہ ایسا خاص ہے ملتا نہیں جس کا جواب

شاہ کہتے ہیں پھلوں کا اس کو سب اہل قلم
موسم گرما ہے اس کی وجہ سے ہی محترم
لیچی اور تربوز کا گرمی میں ہے اپنا مقام
ہے مگر سارے پھلوں میں سب سے افضل صرف آم

ایسی لذت ہے کہ مانو پھل نہیں پکوان ہے
تاجدار ذائقہ ہے شان دسترخوان ہے
اتنی قسمیں ہیں کہ کس کا ذکر ہو کس کا نہیں
ناز ہم کو آم کی ہر قسم پر ہے بالیقین
تخمی ہو کلمی میں بھی بہتر کی بحثیں خوب ہیں

عاشقان آم کے بس عام ہی محبوب ہیں
کوئی چوسنے پر فدا کوئی سفیدے پر نثار
دوڑ ہو آموں کی تو لنگڑا بھی ہوگا شہ سوار
ہر بہاری مالدہ کا نام کرتا ہے بلند

ممبئی والوں کی ہے الفونسو پہلی پسند
یوں ملیح آباد کے آموں کی ہے لذت کمال
نیوتنی بلہور کے بھی آم ہیں کچھ بے مثال
سب کو ہے اپنی طرف کے ام پر بے حد غرور
دوڑ میں شامل ہیں لکھنوا دسہیری بھی حضور

آم کی ہر قسم کا اپنا الگ ہے ذائقہ
رنگ میں کچھ سرخ کوئی زرد ہے کوئی ہرا
کوئی تھوڑا ترش اور کوئی ہے میٹھا بے حساب
ہر کوئی کرتا ہے اپنے ذائقے سے انتخاب
ہاں مگر بچپن میں آموں کا مزہ ہی اور تھا
آم بہتر تھے نہ جانے یا وہ بہتر دور تھا
ہم چھری کانٹے سے کھانے کی نفاست سے تھے دور

چوس کر ہر آم کھانے کا تھا ہم سب میں فطور
اف وہ کچے کیریاں چھڑکا ہوا ان پر نمک
دیکھ کر آنکھوں میں بھر جاتی تھی ہم سب کے چمک
آم کو پیڑوں پہ چڑھ کے کچے پکے توڑنا
اپنے ہی باغوں سے چوری کر کے گھر کو دوڑنا
بالٹی میں ڈھیر سے پانی میں ڈوبے آم ہائے
کس نے کتنے کھا لیے گنتی کوئی کیسے بتائے

بیٹھ کر چھوٹے بڑے سب ساتھ میں کھاتے تھے آم
آم کی محفل سجے تو کیا دوپہری کیسی شام
آم تو روٹی پراٹھے سے بھی کھا لیتے تھے ہم
اور پھر گٹھلی کا بھی پورا مزہ لیتے تھے ہم
آم کے قصے ہینا کوئی کرے کیسے بیاں
سب کے ماضی میں ہے آموں کی الگ ایک داستاں

آم ایک دستور ہے ایک رسم ایک تیوہار ہے
سب مناتے ہیں اسے یہ پھل نہیں ہے پیار ہے

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.