حیدرآباد: احمد فراز کی پیدائش (پاکستان) کوہاٹ کے ایک معزز خاندان میں ہوئی۔ شاعری کا فن انہیں والد سے وراثت میں ملا۔ ان کے والد سید محمد شاہ برق فارسی کے ممتاز شاعر تھے۔ احمد فراز نے اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ایم اے کیا لیکن ان کی مادری زبان پشتو تھی۔ باوجود اس کے انہوں نے چار زبانوں پر عبور حاصل کر اردو زبان میں شاعری کی سمت تلاش کی۔
ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ سائنس اور ریاضی میں تعلیم آگے جاری رکھیں لیکن فراز کا فطری میلان ادب و شاعری کی طرف تھا۔ فراز نے کبھی عشق، کبھی انقلاب کبھی دوستی تو کبھی ماضی کے حالات اپنی شاعری میں بیان کیے ہیں۔ فراز عام طور سے رومانوی شاعر کے طور پر عوام میں مقبول ہیں، ان کی مشہور زمانہ غزل 'رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ' عام و خاص کی زبان زد ہے۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی اس غزل کو ملاحظہ فرمائیں...
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم
اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ
یہ بھی پڑھیں: سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی، احمد فراز |