حیدرآباد: حُسن کسی بھی شے میں ہو اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حُسن ہے تو سب کچھ ہے۔ چرند، پرند، شجر، بشر اپنی خونصورتی کی وجہ سے لوگوں کے کشش کا باعث بنتے ہیں۔ اسی کے حوالے سے آج کے شعر و ادب میں ’حُسن‘ کے عنوان پر مشہور شعراء کے چنندہ اشعار منتخب کئے گئے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔
اب میں سمجھا ترے رخسار پہ تل کا مطلب
دولتِ حسن پہ دربان بٹھا رکھا ہے
قمر مرادآبادی
دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں
جگر مرادآبادی
اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
جو دیکھے ہے کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے
جوش ملیح آبادی
حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
جگر مرادآبادی
حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
قتیل شفائی
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
نامعلوم
تیرا حُسْن ہو میرا عشق ہو
پھر حُسْن وعشق کی بات ہو
کبھی میں ملوں ، کبھی تو ملے
کبھی ہم ملیں ملاقات ہو
نامعلوم
پوچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں
قمر جلالوی
نہ دیکھنا کبھی آئینہ بھول کر دیکھو
تمہارے حسن کا پیدا جواب کر دے گا
بیخود دہلوی
اتنے حجابوں پر تو یہ عالم ہے حُسن کا
کیا حال ہو جو دیکھ لیں پردہ اٹھا کے ہم
جگر مراد آبادی
بارش کے موسم میں حسن کا منظر دیکھا
ایسا لگتا ہے جیسے ہم نے کوئی اپنا دیکھا
ابنِ عدیل