عالمی شہرت یافتہ شاعر راحت اندوری اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی شاعری ہم لوگوں کے درمیان ہمیشہ رہے گی۔ مشاعروں کو اپنی توجہ کا مرکز بنانے والے شاعر راحت اندوری نے 70 برس کی طویل عمر پائی۔
راحت اندوری ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں ایک مل مزدور رفعت اللہ قریشی کے ہاں پیدا ہوئے تھے ان کا اصل نام راحت قریشی ہے اور انہوں نے کم عمری میں ہی شاعری کی ابتدا کی۔
راحت اندوری بھارت میں عصر حاضر کے شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، انہوں نے بھارت میں اقلیت کے حق اور حکومت کی غلط پالیسیز کے خلاف بہت سے مشہور اشعار کہے ہیں۔ ان کا مشہور زمانہ شعر ہے۔
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
راحت اندوری نے عصر حاضر کے علاوہ دوسرے موضوعات پر بھی اشعار کہے ہیں۔ لیکن بھارت میں ان کی شبیہ ایک انقلابی شاعر کے طور پر اکثر دیکھی جاتی ہے۔ اگر ان کی شاعری کا مطالعہ کریں تو وہ صنف نازک سے عشق و معاشقہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ ہوں۔۔
اک ملاقات کا جادو کہ اترتا ہی نہیں
تری خوشبو مری چادر سے نہیں جاتی ہے
اس کے علاوہ راحت اندوری کے کچھ اشعار ایسے بھی ہیں جن کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک ترغیبی شاعر بھی ہیں، ان اشعار میں ایک امید کی کرن نظر آتی ہے۔ وہ صرف ایک جہت میں شعر کہنا پسند نہیں کرتے بلکہ زندگی کے مختلف موضوعات کو اپنی شاعری میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ ہو یہ اشعار۔۔۔
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
۔۔۔۔۔
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
۔۔۔۔
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو