حیدرآباد (نیوز ڈیسک): اردو ادب میں شعرأ نے محبوب کے حُسن، اس کی زلفوں، آنکھوں، لبوں و رخسار وغیرہ پر غزلیں لکھی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد موضوعات پر بھی نظمیں کہی گئی ہیں۔ آج یہاں قارئین کی خدمت میں مشہور شاعر نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم 'کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں' کے موضوع پر چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں:
برسات کی بہاریں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
بادل ہوا کے اوپر ہو مست چھا رہے ہیں
جھڑیوں کی مستیوں سے دھومیں مچا رہے ہیں
پڑتے ہیں پانی ہر جا جل تھل بنا رہے ہیں
گلزار بھیگتے ہیں سبزے نہا رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
ہر جا بچھا رہا ہے سبزہ ہرے بچھونے
قدرت کے بچھ رہے ہیں ہر جا ہرے بچھونے
جنگلوں میں ہو رہے ہیں پیدا ہرے بچھونے
بچھوا دیے ہیں حق نے کیا کیا ہرے بچھونے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
کیچڑ سے ہو رہی ہے جس جا زمیں پھسلنی
مشکل ہوئی ہے واں سے ہر اک کو راہ چلنی
پھسلا جو پاؤں پگڑی مشکل ہے پھر سنبھلنی
جوتی گری تو واں سے کیا تاب پھر نکلی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
گر کر کسی کے کپڑے دلدل میں ہیں معطر
پھسلا کوئی کسی کا کیچڑ میں منہ گیا بھر
اک دو نہیں پھسلتے کچھ اس میں آن اکثر
ہوتے ہیں سیکڑوں کے سر نیچے پاؤں اوپر
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
یہ بھی پڑھیں: