ETV Bharat / literature

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں: فراق گورکھپوری - Firaq Gorakhpuri

فراق گورکھپوری گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار تھے، وہ گنگا جمنی تہذیب جو ہمارے ملک کی پہچان ہے، انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اسی تہذیب کی آبیاری کی۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی مشہور زمانہ غزل 'بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں' ملاحظہ فرمائیں...

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 3, 2024, 2:12 PM IST

Firaq Gorakhpuri
فراق گورکھپوری (Photo: Etv Bharat)

حیدرآباد: رگھوپتی سہائے جو اپنے قلمی نام فراق گورکھپوری کے نام سے جانے جاتے ہیں، ایک بھارتی مصنف، نقاد اور ایک تبصرہ نگار کے طور پر مشہور ہیں۔ فراق کی انفرادیت کو تمام اہم نقادوں نے قبول کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ فراق اب بھی تشنہء جواب ہے۔

فراق نے شاعری یا غزل کی لفظیات کا دائرہ وسیع کیا ہے اور اس میں روح بھر دی ہے، فراق نے اپنے عہد کی رات کو میر کے عہد کی رات سے ملانے کی کوشش کی ہے اور وہ کہیں کہیں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ فراق کے قریب صرف واردات عشق ہی نہیں بلکہ زندگی کی تلخیاں اور سچائیاں بھی موجود ہیں وہ اپنے اشعار کے ذریعے زندگی کی سچائیوں کو روشناس کراتے نظر آتے ہیں۔

فراق گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار تھے، وہ گنگا جمنی تہذیب جو ہمارے ملک کی پہچان ہے، انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اسی تہذیب کی آبیاری کی۔ ہندی اور اردو زبان پر بیک وقت عبور حاصل ہونے کے سبب انھوں نے نہ صرف دونوں زبانوں کی نزاکت کو سمجھا بلکہ دونوں زبان کی نزاکت و لطافت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنی شاعری میں سمویا اور آج کے ہندوستان میں اسی تہذیب کی اسی میل جول کی سخت ضرورت اور وقت کا تقاضہ ہے۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی مشہور زمانہ غزل 'بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں' ملاحظہ فرمائیں...

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں

نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں

جسے کہتی ہے دنیا کامیابی وائے نادانی

اسے کن قیمتوں پر کامیاب انسان لیتے ہیں

نگاہ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا

تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا

اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

حیات عشق کا اک اک نفس جام شہادت ہے

وہ جان ناز برداراں کوئی آسان لیتے ہیں

ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی

مری باتیں بعنوان دگر وہ مان لیتے ہیں

تری مقبولیت کی وجہ واحد تیری رمزیت

کہ اس کو مانتے ہی کب ہیں جس کو جان لیتے ہیں

اب اس کو کفر مانیں یا بلندیٔ نظر جانیں

خدائے دو جہاں کو دے کے ہم انسان لیتے ہیں

جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا

عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں

تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبار الفت میں

ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں

ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگندھ کھاتی ہے

تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیمان لیتے ہیں

رفیق زندگی تھی اب انیس وقت آخر ہے

ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں

زمانہ واردات قلب سننے کو ترستا ہے

اسی سے تو سر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں

فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر

کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں

حیدرآباد: رگھوپتی سہائے جو اپنے قلمی نام فراق گورکھپوری کے نام سے جانے جاتے ہیں، ایک بھارتی مصنف، نقاد اور ایک تبصرہ نگار کے طور پر مشہور ہیں۔ فراق کی انفرادیت کو تمام اہم نقادوں نے قبول کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ فراق اب بھی تشنہء جواب ہے۔

فراق نے شاعری یا غزل کی لفظیات کا دائرہ وسیع کیا ہے اور اس میں روح بھر دی ہے، فراق نے اپنے عہد کی رات کو میر کے عہد کی رات سے ملانے کی کوشش کی ہے اور وہ کہیں کہیں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ فراق کے قریب صرف واردات عشق ہی نہیں بلکہ زندگی کی تلخیاں اور سچائیاں بھی موجود ہیں وہ اپنے اشعار کے ذریعے زندگی کی سچائیوں کو روشناس کراتے نظر آتے ہیں۔

فراق گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار تھے، وہ گنگا جمنی تہذیب جو ہمارے ملک کی پہچان ہے، انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اسی تہذیب کی آبیاری کی۔ ہندی اور اردو زبان پر بیک وقت عبور حاصل ہونے کے سبب انھوں نے نہ صرف دونوں زبانوں کی نزاکت کو سمجھا بلکہ دونوں زبان کی نزاکت و لطافت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنی شاعری میں سمویا اور آج کے ہندوستان میں اسی تہذیب کی اسی میل جول کی سخت ضرورت اور وقت کا تقاضہ ہے۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی مشہور زمانہ غزل 'بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں' ملاحظہ فرمائیں...

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں

نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں

جسے کہتی ہے دنیا کامیابی وائے نادانی

اسے کن قیمتوں پر کامیاب انسان لیتے ہیں

نگاہ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا

تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا

اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

حیات عشق کا اک اک نفس جام شہادت ہے

وہ جان ناز برداراں کوئی آسان لیتے ہیں

ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی

مری باتیں بعنوان دگر وہ مان لیتے ہیں

تری مقبولیت کی وجہ واحد تیری رمزیت

کہ اس کو مانتے ہی کب ہیں جس کو جان لیتے ہیں

اب اس کو کفر مانیں یا بلندیٔ نظر جانیں

خدائے دو جہاں کو دے کے ہم انسان لیتے ہیں

جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا

عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں

تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبار الفت میں

ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں

ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگندھ کھاتی ہے

تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیمان لیتے ہیں

رفیق زندگی تھی اب انیس وقت آخر ہے

ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں

زمانہ واردات قلب سننے کو ترستا ہے

اسی سے تو سر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں

فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر

کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.