ETV Bharat / literature

کمال امروہوی کا نام ذہن میں آتے ہی فلم ’پاکیزہ‘ کا خیال ذہن میں ضرور آتا ہے - بالی ووڈ

Kamal Amrohi Death Anniversary: کمال امروہوی 17 جنوری 1917 کو اترپردیش کے امروہہ ضلع میں پیدا ہوئے۔ ان کے فلم انڈسٹری میں داخلہ کا واقعہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ وہ بچپن میں انتہائی شرارتی تھے اور اپنی شرارتوں سے پورے گاؤں کی ناک میں دم کئے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ ایک دن وہ انتہائی مقبول افراد میں شمار کئے جائیں گے اور ان کے دامن کو سونے چاندی کے سکوں سے بھر دیں گے۔

Kamal Amrohi Death Anniversary
کمال امروہوی کا نام ذہن میں آتے ہی فلم ’پاکیزہ‘ کا خیال ذہن میں ضرور آتا ہے
author img

By UNI (United News of India)

Published : Feb 11, 2024, 1:15 PM IST

ممبئی: کمال امروہوی کا نام ذہن میں آتے ہی فلم ’پاکیزہ‘ کا خیال ذہن میں ضرور آتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے دیگر فلمیں بھی بنائیں لیکن اس شاہکار فلم کے خالق کمال امرہوی کا یہ ڈریم پروجیکٹ تھا۔ بہترین ڈائیلاگ ‘موسیقی‘ نغمات اور مینا کماری کی بے مثال اداکاری کی بدولت اس فلم نے ناظرین کے دل و دماغ پر ایسے نقوش ثبت کئے، جنہیں آج تک محو نہیں کیا جاسکا۔

اس کے نغموں میں اس قدر کشش ہے کہ آج بھی جب فلم ’پاکیزہ‘ کے نغمے کہیں سنائی دیتے ہیں تو لوگوں کے دل کی دھڑکنیں تھم جاتی ہیں اور لوگ ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں۔ ویسے تو اس فلم کے سبھی نغمات پسند کئے جاتے ہیں لیکن اس کا ایک گیت ’’موسم ہے عاشقانہ….. اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا… انتہائی مقبول ہوا۔

دل کے ساز چھیڑنے والی موسیقی اور الفاظ کی بندش کے سبب اس فلم نے کامیابی کے ریکارڈ توڑے۔ آج اسے فلم انڈسٹری کی کلاسک فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ’پاکیزہ‘ کمال امروہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم تھی جس پر انہوں نے 1958 میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ عہد بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کا تھا۔ یہ فلم بھی بلیک اینڈ وہائٹ بننے والی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ہندوستان میں سنیما اسکوپ کا رواج ہوا تو انہوں نے 1961میں سنیما اسکوپ کی شکل میں بنانا شروع کیا۔

کمال امروہوی 17 جنوری 1917 کو اترپردیش کے امروہہ ضلع میں پیدا ہوئے۔ ان کے فلم انڈسٹری میں داخلہ کا واقعہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بچپن میں انتہائی شرارتی تھے اور اپنی شرارتوں سے پورے گاؤں کی ناک میں دم کئے رہتے تھے۔ ایک بار ان کی والدہ نے انہیں زبردست پھٹکار لگائی تو انہوں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ ایک دن وہ انتہائی مقبول افراد میں شمار کئے جائیں گے اور ان کے دامن کو سونے چاندی کے سکوں سے بھر دیں گے۔ اس دوران ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے ان کی زندگی کے رخ کو بدل دیا۔ ہوا یوں کہ ان کے بڑے بھائی نے ان کی شرارتوں سے تنگ آکر انہیں طمانچہ رسید کر دیا۔ غصہ سے بپھرے کمال امروہوی گھر چھوڑ کر لاہور بھاگ پڑے۔

لاہور نے ان کی زندگی کی سمت ہی بدل دی۔ انہوں نے بڑا آدمی بننے کا عزم کر لیا تھا۔ انہوں نے خوب محنت کی اور قدیم لسانیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلی۔ وہ انتہائی ذہین تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے محض 18سال کی عمر میں ہی ایک اردو اخبار میں کالم نگاری شروع کردی۔

اخبار کے مدیر کمال امروہوی کی صلاحیتوں کے اس قدر معترف ہوئے کہ اس زمانہ میں انہوں نے 300روپے ان کا مشاہرہ مقرر کر دیا۔ یہ اس وقت ایک خطیر رقم شمار کی جاتی تھی۔ کچھ دنوں تک اخبار میں کام کرنے کے بعد ان کا دل اس کام سے بھر گیا اور وہ کلکتہ آگئے اور وہاں سے پھر بمبئی کا رخ کیا۔

لاہور میں کمال امروہوی کی ملاقات معروف نغمہ نواز اور اداکار کندن سہگل سے ہوئی۔ کمال صاحب کی صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں فلم میں کام دلانے کے لئے سہراب مودی کے پاس بمبئی لائے۔ وہ یہاں آکر فلم انڈسٹری میں جدو جہد کرنے لگے۔ اسی دوران انہوں نے خواجہ احمد عباس تک رسائی حاصل کی۔ ان کی کہانی ’سپنوں کا محل‘ سے فلم ساز و ہدایت کار اور معروف کہانی نویس خواجہ احمد عباس بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے اس پر فلم بنانے کا ارادہ کرلیا۔

اس کے لئے فلم ساز بھی تلاش کرلیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد کمال امروہوی کو معاشی تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے پاس کھانے کے لئے پیسہ تھا نہ سر چھپانے کے لئے گھر۔ ان کے ستارے گردش میں تھے۔ اسی دوران انہیں خبر ملی کہ سہراب مودی کسی نئی اور اچھوتی کہانی کی تلاش میں ہیں۔ وہ فوراً ان کے پاس پہنچے اور انہیں تین سو روپے ماہانہ تنخواہ پر رکھ لیا۔

ان کی کہانی پر مبنی فلم پکار(1939) انتہائی سپر ہٹ رہی۔ یہ فلم نسیم بانو اور چندرموہن کی اداکاری سے مزین تھی۔ انہوں نے اس فلم کے لئے چار گیت لکھے۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد کمال امروہوی کا جادو فلموں میں چل گیا اور انہوں نے متعدد فلموں کے لئے کہانی اسکرپٹ اور ڈائیلاگ تحریر کئے۔

فلم’ محل‘ کمال امروہوی کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوئی۔ یہ فلم تجسس اور رومانس سے بھری تھی۔ فلم ساز اشوک کمار نے اس کی ہدایت کاری کی ذمہ داری کمال امروہوی کو سونپی۔ بہترین گیتوں اور موسیقی کے سبب یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی اور اس کے بعد سے ہی فلموں میں سسپنس کا رواج چل پڑا۔ فلم کی زبردست کامیابی نے مدھوبالا اور لتامنگیشکر کو نئی شناخت فراہم کی۔ اس سے حوصلہ پاکر کمال امروہوی نے 1953 میں کمال پکچرس اور 1958 میں کمالستان اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی۔ اس کے بینر تلے انہوں نے اپنی بیوی مینا کماری کو لے کر ایک آرٹ فلم ’’دائرہ‘‘ بنائی لیکن یہ فلم کامیاب نہ ہوسکی۔

اسی دوران فلم ساز و ہدایت کار کے آصف اپنی اہم فلم ’مغل اعظم‘ بنانے میں مصروف تھے۔ اس کے ڈائیلاگ وجاہت مرزا لکھ رہے تھے۔ کے آصف نے محسوس کیا کہ ایک ایسے ڈائیلاگ لکھنے والے کی ضرورت ہے جس کے تحریر کردہ ڈائیلاگ ناظرین کے دماغ میں برسوں تک گونجتے رہیں۔ اس کے لئے انہوں نے کمال امروہوی کا انتخاب کیا اور انہوں نے چار ڈائیلاگ لکھنے والوں میں شامل کرلیا۔ ان کے تحریر کردہ ڈائیلاگ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ عاشق و معشوق خط و کتابت میں ان کا استعمال کرتے تھے۔ اس فلم میں بہترین ڈائیلاگ لکھنے کے لئے انہیں فلم فیئر انعام سے بھی نوازا گیا۔

کمال امروہوی نے فلم جیلر(1938)، میں ہاری (1940)، بھروسہ (1940)، مذاق (1943)، پھول (1945)، شاہ جہاں (1946)، محل(1949)، دائرہ(1953)، دل اپنا اور پریت پرائی(1960) مغل اعظم (1960) پاکیزہ (1971)، شنکر حسین (1971) اور رضیہ سلطان (1983) فلموں کے لئے کہانی، ڈائیلاگ اور اسکرپٹ لکھی۔

یہ سچ ہے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں فلموں کے لئے اپنی خدمات پیش نہیں کی لیکن جن چنندہ فلموں میں انہوں نے کام کیا، پوری یکسوئی، لگن اور جنون کے ساتھ کام کیا۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے کام کرنے کی رفتار انتہائی سست ہوتی تھی، جس کے سبب ان پر تنقید بھی کی جاتی تھی۔ ’رضیہ سلطان‘ کی فلم سازی کی رفتار دھیمی ہونے کے سبب ہیمامالنی نے بھی ان پر تنقید کی تھی۔ لیکن ان کے کام میں ان کی شخصیت کی جھلک صاف نظر آتی تھی۔

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ ’پاکیزہ‘ کمال امروہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم تھی جس پر انہوں نے 1958میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ عہد بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کا تھا۔ یہ فلم بھی بلیک اینڈ وہائٹ بننے والی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ہندوستان میں سنیما اسکوپ کا رواج ہوا تو انہوں نے 1961میں سنیما اسکوپ کی شکل میں بنانا شروع کیا۔ لیکن کمال امروہوی کی اپنی تیسری بیوی مینا کماری سے علاحدگی کے سبب اس کی فلم سازی 1961 تا 1969 تعطل کا شکار رہی۔ بعد ازاں انہوں نے مینا کماری کو کسی طرح اس فلم میں کام کرنے پر راضی کیا۔ بالآخر 1971میں یہ فلم مکمل ہوئی اور فروری 1972میں ریلیز ہوئی۔

یاد رہے کہ کمال امروہوی نے تین شادیاں کیں۔ ان کی پہلی بیوی کا نام بانو تھا جو نرگس کی ماں جدن بائی کی نوکرانی تھیں۔ بانو کی استھما سے موت کے بعد انہوں نے محمودی سے شادی کی۔ تیسری شادی انہوں نے اداکارہ مینا کماری سے کی جو عمر میں ان سے پندرہ برس چھوٹی تھیں۔ دونوں کی ملاقات ایک فلم کے سیٹ پر ہوئی اور ان میں پیار پروان چڑھا یہاں تک کہ دونوں 1952 میں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ اس وقت کمال امروہوی چوبیس سال کے تھے اور میناکماری 19 سال کی۔لیکن یہ شادی زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہی اور دونوں میں علاحدگی ہوگئی۔

دراصل مینا کماری کمال امروہوی کی صلاحیتوں کی معترف تھیں، اسی لئے وہ ان کے قریب ہوئیں۔ لیکن جیسے جیسے مینا کماری خود کفیل ہوتی گئیں، کمال امروہوی کا سحر بھی ٹوٹنے لگا۔ دونوں میں تکرار معمول بن گیا۔ اس تناؤ کے سبب فاصلوں میں اضافہ ہوا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔

اس سلسلہ میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ کمال امروہوی تو مینا کماری کو طلاق دے چکے تھے لیکن انہیں اس کا بہت پچھتاوا ہوا اور وہ بہت رنجور ہوئے۔ اب بھی مینا کماری کی محبت ان کے دل کے کسی گوشہ میں زندہ تھی۔ مینا کماری سے عقد ثانی کے لئے ان کے سامنے ایک ہی راستہ تھا، وہ تھا حلالہ۔ یعنی کوئی مینا کماری سے نکاح کرے اور طلاق دے دے، اس کے بعد ہی کمال امروہوی سے نکاح ہو سکتا تھا۔

انہوں نے ان سے دوبارہ نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کے سکریٹری باقر نے اس کا پورا انتظام کرلیا تھا۔ لیکن اس دوران مینا کماری کی دھرمیندر سے قربت نے اس معاملہ پر پانی پھیر دیا۔ مینا کماری ’پاکیزہ‘ فلم کے لئے بطور ہیرو دھرمیندر کو لینا چاہتی تھیں۔کمال امروہوی نے مینا کماری کی دھرمیندر سے قربت کو بھانپ کر اس فلم کے ہیرو کے لئے راج کمار کو سائن کرلیا۔ اس کے بعد دونوں میں جم کر لڑائی اور تکرار ہوئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کمال امروہوی نے مینا کماری کے نرم و نازک گالوں پر زوردار طمانچہ رسید کردیا۔ پھر کیا تھا مینا کماری آگ بگولہ ہوگئیں اور چیخ کر کہا کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی۔ آپ تو قانونی طور پر میرے شوہر بھی نہیں ہیں۔

میناکماری کی یہ بات سچ بھی تھی کیوں کہ اس وقت تک ان کے سکریٹری باقر نے انہیں طلاق بھی نہیں دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کمال امروہی نے اسی وقت باقر کو طلب کیا اور سب کی موجودگی میں اس سے کہا مینا کماری کی پٹائی کرے۔ عینی شاہدین کے مطابق باقر نے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کی۔ بعد ازاں مینا کماری ہمیشہ کے لئے کمال امروہوی کی زندگی سے نکل گئیں۔ لیکن ان کے دل میں مینا کماری کی محبت اور پیار کا جذبہ تامرگ باقی رہا۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کی خواہش کے مطابق انہیں مینا کماری کی قبر کے بغل میں دفن کیا گیا۔

فلم ’پاکیزہ‘ کی تکمیل کے بعد فلم ساز و مکالمہ نگار کمال امروہوی کا کچھ عرصہ کے لئے فلموں سے ربط منقطع رہا۔ بعد ازاں 1983 میں انہوں نے فلم انڈسٹری کا رخ کیا اور اپنی ہدایت کاری میں ’رضیہ سلطان‘ بنا کر فلم انڈسٹری میں اپنا سکہ جمایا۔یہ فلم حالانکہ کچھ زیادہ مقبول نہیں ہوئی کیونکہ اس کے مکالموں میں فارسی کا کثرت سے استعمال کیا گیا تھا جن سے عام لوگ متاثر نہیں ہو سکے۔ لیکن یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو لوگ فارسی داں ہیں، انہوں نے اس فلم کو ہٹ فلموں کی طرح دیکھا۔

مشہور اداکارہ ہیمامالنی نے اس فلم میں رضیہ سلطان کا کردار بخوبی نبھایا اور حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے کس طرح مکالموں کی ادائیگی کی کیونکہ اس کے مکالموں میں فارسی الفاظ کی کثرت تھی۔ بہر حال ہیمامالنی بہترین اداکارہ ہیں۔ ان سے ایسی توقع کی جاسکتی تھی اور انہوں نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ یہ عظیم الشان فلم باکس آفس پر زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ کمال امروہوی اس سے بے حد مغموم ہوئے۔ کچھ دنوں تک وہ صدمے میں رہے پھر دوبارہ حوصلہ کرکے انہوں نے ایک اور فلم ’آخری مغل‘ بنانے کا ارادہ کیا لیکن ان کا فلم بنانے کا یہ خواب حقیقت میں نہیں بدل سکا اور یہ عظیم فن کار 11 فروری 1993 کو خالق حقیقی سے جاملا۔

ممبئی: کمال امروہوی کا نام ذہن میں آتے ہی فلم ’پاکیزہ‘ کا خیال ذہن میں ضرور آتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے دیگر فلمیں بھی بنائیں لیکن اس شاہکار فلم کے خالق کمال امرہوی کا یہ ڈریم پروجیکٹ تھا۔ بہترین ڈائیلاگ ‘موسیقی‘ نغمات اور مینا کماری کی بے مثال اداکاری کی بدولت اس فلم نے ناظرین کے دل و دماغ پر ایسے نقوش ثبت کئے، جنہیں آج تک محو نہیں کیا جاسکا۔

اس کے نغموں میں اس قدر کشش ہے کہ آج بھی جب فلم ’پاکیزہ‘ کے نغمے کہیں سنائی دیتے ہیں تو لوگوں کے دل کی دھڑکنیں تھم جاتی ہیں اور لوگ ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں۔ ویسے تو اس فلم کے سبھی نغمات پسند کئے جاتے ہیں لیکن اس کا ایک گیت ’’موسم ہے عاشقانہ….. اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا… انتہائی مقبول ہوا۔

دل کے ساز چھیڑنے والی موسیقی اور الفاظ کی بندش کے سبب اس فلم نے کامیابی کے ریکارڈ توڑے۔ آج اسے فلم انڈسٹری کی کلاسک فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ’پاکیزہ‘ کمال امروہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم تھی جس پر انہوں نے 1958 میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ عہد بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کا تھا۔ یہ فلم بھی بلیک اینڈ وہائٹ بننے والی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ہندوستان میں سنیما اسکوپ کا رواج ہوا تو انہوں نے 1961میں سنیما اسکوپ کی شکل میں بنانا شروع کیا۔

کمال امروہوی 17 جنوری 1917 کو اترپردیش کے امروہہ ضلع میں پیدا ہوئے۔ ان کے فلم انڈسٹری میں داخلہ کا واقعہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بچپن میں انتہائی شرارتی تھے اور اپنی شرارتوں سے پورے گاؤں کی ناک میں دم کئے رہتے تھے۔ ایک بار ان کی والدہ نے انہیں زبردست پھٹکار لگائی تو انہوں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ ایک دن وہ انتہائی مقبول افراد میں شمار کئے جائیں گے اور ان کے دامن کو سونے چاندی کے سکوں سے بھر دیں گے۔ اس دوران ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے ان کی زندگی کے رخ کو بدل دیا۔ ہوا یوں کہ ان کے بڑے بھائی نے ان کی شرارتوں سے تنگ آکر انہیں طمانچہ رسید کر دیا۔ غصہ سے بپھرے کمال امروہوی گھر چھوڑ کر لاہور بھاگ پڑے۔

لاہور نے ان کی زندگی کی سمت ہی بدل دی۔ انہوں نے بڑا آدمی بننے کا عزم کر لیا تھا۔ انہوں نے خوب محنت کی اور قدیم لسانیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلی۔ وہ انتہائی ذہین تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے محض 18سال کی عمر میں ہی ایک اردو اخبار میں کالم نگاری شروع کردی۔

اخبار کے مدیر کمال امروہوی کی صلاحیتوں کے اس قدر معترف ہوئے کہ اس زمانہ میں انہوں نے 300روپے ان کا مشاہرہ مقرر کر دیا۔ یہ اس وقت ایک خطیر رقم شمار کی جاتی تھی۔ کچھ دنوں تک اخبار میں کام کرنے کے بعد ان کا دل اس کام سے بھر گیا اور وہ کلکتہ آگئے اور وہاں سے پھر بمبئی کا رخ کیا۔

لاہور میں کمال امروہوی کی ملاقات معروف نغمہ نواز اور اداکار کندن سہگل سے ہوئی۔ کمال صاحب کی صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں فلم میں کام دلانے کے لئے سہراب مودی کے پاس بمبئی لائے۔ وہ یہاں آکر فلم انڈسٹری میں جدو جہد کرنے لگے۔ اسی دوران انہوں نے خواجہ احمد عباس تک رسائی حاصل کی۔ ان کی کہانی ’سپنوں کا محل‘ سے فلم ساز و ہدایت کار اور معروف کہانی نویس خواجہ احمد عباس بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے اس پر فلم بنانے کا ارادہ کرلیا۔

اس کے لئے فلم ساز بھی تلاش کرلیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد کمال امروہوی کو معاشی تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے پاس کھانے کے لئے پیسہ تھا نہ سر چھپانے کے لئے گھر۔ ان کے ستارے گردش میں تھے۔ اسی دوران انہیں خبر ملی کہ سہراب مودی کسی نئی اور اچھوتی کہانی کی تلاش میں ہیں۔ وہ فوراً ان کے پاس پہنچے اور انہیں تین سو روپے ماہانہ تنخواہ پر رکھ لیا۔

ان کی کہانی پر مبنی فلم پکار(1939) انتہائی سپر ہٹ رہی۔ یہ فلم نسیم بانو اور چندرموہن کی اداکاری سے مزین تھی۔ انہوں نے اس فلم کے لئے چار گیت لکھے۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد کمال امروہوی کا جادو فلموں میں چل گیا اور انہوں نے متعدد فلموں کے لئے کہانی اسکرپٹ اور ڈائیلاگ تحریر کئے۔

فلم’ محل‘ کمال امروہوی کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوئی۔ یہ فلم تجسس اور رومانس سے بھری تھی۔ فلم ساز اشوک کمار نے اس کی ہدایت کاری کی ذمہ داری کمال امروہوی کو سونپی۔ بہترین گیتوں اور موسیقی کے سبب یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی اور اس کے بعد سے ہی فلموں میں سسپنس کا رواج چل پڑا۔ فلم کی زبردست کامیابی نے مدھوبالا اور لتامنگیشکر کو نئی شناخت فراہم کی۔ اس سے حوصلہ پاکر کمال امروہوی نے 1953 میں کمال پکچرس اور 1958 میں کمالستان اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی۔ اس کے بینر تلے انہوں نے اپنی بیوی مینا کماری کو لے کر ایک آرٹ فلم ’’دائرہ‘‘ بنائی لیکن یہ فلم کامیاب نہ ہوسکی۔

اسی دوران فلم ساز و ہدایت کار کے آصف اپنی اہم فلم ’مغل اعظم‘ بنانے میں مصروف تھے۔ اس کے ڈائیلاگ وجاہت مرزا لکھ رہے تھے۔ کے آصف نے محسوس کیا کہ ایک ایسے ڈائیلاگ لکھنے والے کی ضرورت ہے جس کے تحریر کردہ ڈائیلاگ ناظرین کے دماغ میں برسوں تک گونجتے رہیں۔ اس کے لئے انہوں نے کمال امروہوی کا انتخاب کیا اور انہوں نے چار ڈائیلاگ لکھنے والوں میں شامل کرلیا۔ ان کے تحریر کردہ ڈائیلاگ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ عاشق و معشوق خط و کتابت میں ان کا استعمال کرتے تھے۔ اس فلم میں بہترین ڈائیلاگ لکھنے کے لئے انہیں فلم فیئر انعام سے بھی نوازا گیا۔

کمال امروہوی نے فلم جیلر(1938)، میں ہاری (1940)، بھروسہ (1940)، مذاق (1943)، پھول (1945)، شاہ جہاں (1946)، محل(1949)، دائرہ(1953)، دل اپنا اور پریت پرائی(1960) مغل اعظم (1960) پاکیزہ (1971)، شنکر حسین (1971) اور رضیہ سلطان (1983) فلموں کے لئے کہانی، ڈائیلاگ اور اسکرپٹ لکھی۔

یہ سچ ہے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں فلموں کے لئے اپنی خدمات پیش نہیں کی لیکن جن چنندہ فلموں میں انہوں نے کام کیا، پوری یکسوئی، لگن اور جنون کے ساتھ کام کیا۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے کام کرنے کی رفتار انتہائی سست ہوتی تھی، جس کے سبب ان پر تنقید بھی کی جاتی تھی۔ ’رضیہ سلطان‘ کی فلم سازی کی رفتار دھیمی ہونے کے سبب ہیمامالنی نے بھی ان پر تنقید کی تھی۔ لیکن ان کے کام میں ان کی شخصیت کی جھلک صاف نظر آتی تھی۔

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ ’پاکیزہ‘ کمال امروہوی کی ڈریم پروجیکٹ فلم تھی جس پر انہوں نے 1958میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ عہد بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کا تھا۔ یہ فلم بھی بلیک اینڈ وہائٹ بننے والی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ہندوستان میں سنیما اسکوپ کا رواج ہوا تو انہوں نے 1961میں سنیما اسکوپ کی شکل میں بنانا شروع کیا۔ لیکن کمال امروہوی کی اپنی تیسری بیوی مینا کماری سے علاحدگی کے سبب اس کی فلم سازی 1961 تا 1969 تعطل کا شکار رہی۔ بعد ازاں انہوں نے مینا کماری کو کسی طرح اس فلم میں کام کرنے پر راضی کیا۔ بالآخر 1971میں یہ فلم مکمل ہوئی اور فروری 1972میں ریلیز ہوئی۔

یاد رہے کہ کمال امروہوی نے تین شادیاں کیں۔ ان کی پہلی بیوی کا نام بانو تھا جو نرگس کی ماں جدن بائی کی نوکرانی تھیں۔ بانو کی استھما سے موت کے بعد انہوں نے محمودی سے شادی کی۔ تیسری شادی انہوں نے اداکارہ مینا کماری سے کی جو عمر میں ان سے پندرہ برس چھوٹی تھیں۔ دونوں کی ملاقات ایک فلم کے سیٹ پر ہوئی اور ان میں پیار پروان چڑھا یہاں تک کہ دونوں 1952 میں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ اس وقت کمال امروہوی چوبیس سال کے تھے اور میناکماری 19 سال کی۔لیکن یہ شادی زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہی اور دونوں میں علاحدگی ہوگئی۔

دراصل مینا کماری کمال امروہوی کی صلاحیتوں کی معترف تھیں، اسی لئے وہ ان کے قریب ہوئیں۔ لیکن جیسے جیسے مینا کماری خود کفیل ہوتی گئیں، کمال امروہوی کا سحر بھی ٹوٹنے لگا۔ دونوں میں تکرار معمول بن گیا۔ اس تناؤ کے سبب فاصلوں میں اضافہ ہوا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔

اس سلسلہ میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ کمال امروہوی تو مینا کماری کو طلاق دے چکے تھے لیکن انہیں اس کا بہت پچھتاوا ہوا اور وہ بہت رنجور ہوئے۔ اب بھی مینا کماری کی محبت ان کے دل کے کسی گوشہ میں زندہ تھی۔ مینا کماری سے عقد ثانی کے لئے ان کے سامنے ایک ہی راستہ تھا، وہ تھا حلالہ۔ یعنی کوئی مینا کماری سے نکاح کرے اور طلاق دے دے، اس کے بعد ہی کمال امروہوی سے نکاح ہو سکتا تھا۔

انہوں نے ان سے دوبارہ نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کے سکریٹری باقر نے اس کا پورا انتظام کرلیا تھا۔ لیکن اس دوران مینا کماری کی دھرمیندر سے قربت نے اس معاملہ پر پانی پھیر دیا۔ مینا کماری ’پاکیزہ‘ فلم کے لئے بطور ہیرو دھرمیندر کو لینا چاہتی تھیں۔کمال امروہوی نے مینا کماری کی دھرمیندر سے قربت کو بھانپ کر اس فلم کے ہیرو کے لئے راج کمار کو سائن کرلیا۔ اس کے بعد دونوں میں جم کر لڑائی اور تکرار ہوئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کمال امروہوی نے مینا کماری کے نرم و نازک گالوں پر زوردار طمانچہ رسید کردیا۔ پھر کیا تھا مینا کماری آگ بگولہ ہوگئیں اور چیخ کر کہا کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی۔ آپ تو قانونی طور پر میرے شوہر بھی نہیں ہیں۔

میناکماری کی یہ بات سچ بھی تھی کیوں کہ اس وقت تک ان کے سکریٹری باقر نے انہیں طلاق بھی نہیں دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کمال امروہی نے اسی وقت باقر کو طلب کیا اور سب کی موجودگی میں اس سے کہا مینا کماری کی پٹائی کرے۔ عینی شاہدین کے مطابق باقر نے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کی۔ بعد ازاں مینا کماری ہمیشہ کے لئے کمال امروہوی کی زندگی سے نکل گئیں۔ لیکن ان کے دل میں مینا کماری کی محبت اور پیار کا جذبہ تامرگ باقی رہا۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کی خواہش کے مطابق انہیں مینا کماری کی قبر کے بغل میں دفن کیا گیا۔

فلم ’پاکیزہ‘ کی تکمیل کے بعد فلم ساز و مکالمہ نگار کمال امروہوی کا کچھ عرصہ کے لئے فلموں سے ربط منقطع رہا۔ بعد ازاں 1983 میں انہوں نے فلم انڈسٹری کا رخ کیا اور اپنی ہدایت کاری میں ’رضیہ سلطان‘ بنا کر فلم انڈسٹری میں اپنا سکہ جمایا۔یہ فلم حالانکہ کچھ زیادہ مقبول نہیں ہوئی کیونکہ اس کے مکالموں میں فارسی کا کثرت سے استعمال کیا گیا تھا جن سے عام لوگ متاثر نہیں ہو سکے۔ لیکن یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو لوگ فارسی داں ہیں، انہوں نے اس فلم کو ہٹ فلموں کی طرح دیکھا۔

مشہور اداکارہ ہیمامالنی نے اس فلم میں رضیہ سلطان کا کردار بخوبی نبھایا اور حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے کس طرح مکالموں کی ادائیگی کی کیونکہ اس کے مکالموں میں فارسی الفاظ کی کثرت تھی۔ بہر حال ہیمامالنی بہترین اداکارہ ہیں۔ ان سے ایسی توقع کی جاسکتی تھی اور انہوں نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ یہ عظیم الشان فلم باکس آفس پر زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ کمال امروہوی اس سے بے حد مغموم ہوئے۔ کچھ دنوں تک وہ صدمے میں رہے پھر دوبارہ حوصلہ کرکے انہوں نے ایک اور فلم ’آخری مغل‘ بنانے کا ارادہ کیا لیکن ان کا فلم بنانے کا یہ خواب حقیقت میں نہیں بدل سکا اور یہ عظیم فن کار 11 فروری 1993 کو خالق حقیقی سے جاملا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.