حیدرآباد (نیوز ڈیسک): حفیظ الرحمٰن 10 جنوری 1922 کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ 1939 میں انہوں نے فیض عام انٹر کالج سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ حفیظ الرحمٰن کو ادب سے بہت لگاؤ تھا مگر اپنے نانا منشی خادم حسین کی وفات کی وجہ سے اپنی تعلیم ترک کرنی پڑی۔ انکے دادا محترم بھی ادب میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔
حفیظ میرٹھی کو شاعری کا شوق اپنے دادا کی وجہ سے پیدا ہوا۔ 1947 میں انہوں نے پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے ایف اے پاس کیا۔ وہ جماعت اسلامی کے سرگرم رکن تھے اس لئے انہیں 1975 میں نظر بند بھی کر دیا گیا تھا۔
حفیظ الرحمٰن میرٹھی عاصم بریلوی کے شاگرد تھے۔ وہ طویل عرصے تک مشاعروں کے مستقل ستارے رہے۔ حفیظ الرحمٰن، جنہوں نے حفیظ کا قلمی نام استعمال کیا، بہت سے اشعار لکھے جو بڑے پیمانے پر شائع ہوئے۔ بیرون ملک منعقد ہونے والے مشاعروں میں بھی شرکت کی۔
شیر و شعور اور متاع آخر شب، ان کی شاعری کے مجموعے ہیں۔ ان کا دوسرا مجموعہ یو پی اردو اکادمی ایوارڈکے لیے منتخب ہوا۔ ان کا انتقال 7 جنوری 2000 کو ہوا۔ پیشِ خدمت ہے انکی مشہور غزل۔۔۔
دیش کا نیتا ووٹ کی بھکشا بھاشن دے کر مانگے ہے
یعنی ہمارے قتل کو ظالم ہم سے خنجر مانگے ہے
اس کو پکڑو اس کو مارو جس نے جگایا ہے اس کو
یہ فٹ پاتھ پہ سونے والا رہنے کو گھر مانگے ہے
پہلے تو برباد کرے ہے بم برسا کر شہروں کو
تعمیروں کو ٹھیکے بھی پھر حملہ آور مانگے ہے
ہارا ہوں تو دوست بھی میرے دشمن ہوتے جاتے ہیں
اب میری تلوار ہی مجھ سے خود میرا سر مانگے
مجبوری اور پیشہ وری کی یہ زندہ تصویریں ہیں
اک چپ ہے دامن پھیلائے اک چلا کر مانگے ہے
کنجوسی موذی فطرت اور ہوس شیوہ اس کا
مشکل سے ایک قطرہ دے ہے اور سمندر مانگے ہے
اپنے اپنے ڈھنگ سے شاعر داد طلب کرتے ہیں حفیظ
کوئی ڈرامہ بازی کر کے کوئی گا کر مانگے ہے
یہ بھی سنیں:
- آؤ ہم تم عشق کے اظہار کی باتیں کریں، ڈال کر بانہوں میں باہیں پیار کی باتیں کریں
- اظہارِ محبت پر منتخب اشعار: عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہیے
- ہاتھ ملانے پر خوبصورت شاعرانہ نوک جھونک، شعرا کے دلچسپ اختلاف رائے پر منتخب کلام سنیے
- ساحر لدھیانوی: میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں، وہ تبسم وہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو
- محبت کے عنوان پر مشہور شاعروں کے بہترین اشعار