جونپور: معروف شاعر محشر آفریدی ایک مشاعرے کے تعلق سے ریاست اتر پردیش کے ضلع جونپور پہنچے تھے جہاں ای ٹی وی بھارت اردو سے انہوں نے اردو زبان و ادب اور مشاعرے کے گھٹتے ہوئے معیار کے حوالے سے خصوصی گفتگو کی ہے، محشر آفریدی کا تعلق چوٹیوں کے شاعروں میں ہوتا ہے ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی انہوں نے درجنوں مشاعروں میں حصہ لے کر اپنی شاعری کا لوہا منوایا ہے۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعہ سے ہمیشہ عوامی مسائل کا اجاگر کرنے کی کوشش اور حب الوطنی سے سرشار اشعار پیش کرتے ہیں جس کو وجہ سے شعر و ادب کی دنیا میں ان کا منفرد مقام و مرتبہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
ای ٹی وی بھارت اردو سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس بھارت دیش سے ہمیں اتنی محبت ہے کہ اس کو چھوڑ ہی نہیں سکتے ہیں اور یہی پیغام اپنی شاعری کے ذریعہ بھی دیتا ہوں، انہوں نے کہا کہ سامعین ہر جگہ ہر طرح کے ہوتے ہیں البتہ مشاعروں میں شعراء اوریجنل اشعار نہیں سناتے ہیں۔ وہ سامعین تک پہنچتا ہی نہیں۔ وہ ایسے اشعار پیش کرکے ہٹ ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ کنوینر دوبارہ بلائے جو مشاعروں کا بڑا المیہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج مجھے اس بات کا بے حد قلق رہتا ہے کہ مشاعروں میں جونیر شعراء سینئر شعراء کی عزت کا خیال نہیں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ وہ آداب و لحاظ سے واقف نہیں ہیں۔ شارٹ کٹ سے مشاعروں میں انٹری کرکے دوبئی جانے کے چکر میں ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھے مشاعرے میں قدم رکھتے ہوئے 30 سال ہو گیا ہے۔ آج کے دور میں نئی نسل مشاعروں میں صرف اس وجہ سے آرہی ہے کہ یہاں گلیمر زیادہ ہے اور جو چیز کمرشیل ہو جائے اس کی روح ختم ہو جاتی ہے۔ پہلے کے مشاعرے خالص ادبی خدمات کے لیے ہوتے تھے۔ آج کے مشاعرے کمرشیل اور ایک انڈسٹریز کی طرز پر ہو رہے ہیں۔
محشر آفریدی نے کہا کہ یہ کہنا کہ آج اردو زبان صرف مدارس کی وجہ سے زندہ ہے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کیونکہ وہاں کا ادب دوسرے طریقہ کا ہے اور مشاعروں میں جو ادب سکھایا جاتا ہے وہ لٹریچر سے لبریز ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ آج بھی شعراء کو عوام کی بات کہنے کی آزادی ہے۔ بس بات کہنے کا طریقہ منفرد ہونا چاہیے۔ کچھ لوگ اچھے انداز میں کہتے ہیں۔ کچھ لوگ بہت بھونڈے طریقہ سے کہتے ہیں، انہوں نے اردو دان طبقہ کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اپنے قلم میں وہ طاقت پیدا کرنا ہے کہ لکھنے کے بعد اس کا اثر دیکھنے کو ملے۔