لکھنؤ: ای ٹی وی بھارت اردو کے خاص نشریات 'ایک شاعر پروگرام' کے تحت لکھنؤ کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر سیف بابر سے ای ٹی وی بھارت نمائندے نے خاص بات چیت کی ہے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کا شعری سفر کیسا رہا اور اس کی ابتدا کیسے ہوئی اور بین الاقوامی شہرت یافتہ کیسے ہوئے اور شاعری کے ذریعے آج بھی لوگوں کے دلوں پہ کیسے راج کر رہے ہیں۔ سیف بابر نہ صرف بھارت کے مقبول شاعر کے طور پر منفرد شناخت رکھتے ہیں بلکہ کویت، دبئی اور قطر سمیت کئی ممالک کے شہروں میں شناخت قائم کی ہے۔ انہوں نے مشاعروں میں اپنی منفرد پہچان بنائی ہے۔ بھارت کے بڑے مشاعروں میں شرکت کی ہے۔ خاص طور سے لال قلعے کا مشاعرہ بھارت کے مشاعروں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ منور رانا مرحوم کے ہمراہ کئی ریاستوں میں مشاعرے پڑھے جس میں خوب داد حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں:
نسائی لہجہ کی ترجمانی کرتی ابھرتی شاعرہ خوشبو پروین سے خاص ملاقات
سیف بابر کے کلام کو معروف گلوکاروں نے دی آواز
سیف بابر نے بتایا کہ بھارت کے سب سے مشہور لال قلعے کے مشاعرے میں تین بار بحیثیت شاعر شرکت کیا۔ اس کے علاوہ دبئی کے انداز بیاں کے بینر تلے مشاعرے میں بحیثیت شاعر مشاعرہ پڑھا، قطر کویت میں بھی مشاعرہ پڑھا جہاں ہندوستان اور پاکستان کے چوٹی کے شعراء موجود رہے۔ سیف بابر کا مجموعۂ کلام 'مجبوریاں ایسی ہیں' کے نام سے 2002 میں منظر عام پر آیا اس کے علاوہ بھارت کے معروف گلوکاروں نے ان کے کلام کو آواز دی ہے۔ سیف بابر کا اصل نام محمد سیف بابر ہے۔ ان کی پیدائش لکھنؤ کے علمی، ادبی اور شعری خانوادہ میں 1965 میں ہوئی۔ 1985 میں ہائی اسکول پاس کیا۔ اس سے قبل اسی کلاس میں دو بار فیل بھی ہوئے۔ جس کی اصل وجہ شاعری تھی۔
وکالت کے ساتھ شاعری کا شوق
اس کے بعد انٹر بی اے، ایم اے اور ایل ایل بی کی تعلیم لکھنؤ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ سول عدالت میں مشق شروع کیا۔ الہٰ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں ہائی کورٹ کے بہترین وکیل بھی بابر کے مطابق ان کے ساتھ کے اب تک تین وکلا جج کے عہدے پر ہیں۔ لیکن مجھے وکالت کا پیشہ راس نہیں آیا آخر کار وکالت چھوڑ کر میں مکمل شاعر ہوگیا۔ انہوں نے بتایا کہ میری شاعری کی ابتدا 8ویں یا نویں جماعت سے ہوئی۔ اس زمانے میں مجھے اگرچہ فن شاعری سے واقفیت نہیں تھی۔ تاہم شوق عروج پر تھا۔ میری شاعری کے پہلے دو مداح میرے ہی دوست تھے۔ جن میں ڈاکٹر پرویز احمد بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ بعد میں میرے بڑے والد ڈاکٹر کمال احمد صدیقی ماہر عروج ممتاز ناقد ادیب نے شاعری کے فن سے واقف کرایا۔
اردو زبان کی تعلیم اسکول میں حاصل نہیں کی
سیف بابر نے کہا کہ میرے بڑے والد ڈاکٹر کمال احمد صدیقی نے میرے شعری سفر میں جو کردار ادا کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ گھر میں بڑے والد شاعر تھے تو اس زمانے کے بڑے شعراء کی صحبت حاصل ہوتی رہی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج میں اردو زبان میں شاعری لکھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے باضابطہ کسی اسکول میں اردو زبان کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ گھر میں ہی اردو کا ماحول رہتا تھا وہیں سے اردو زبان سیکھا ہے۔ میرے گھر اسرار الحق مجاز، علی سردار جعفری، سلام مچھلی شہری اور انور جلال پوری سمیت سرکردہ شعرا کی محفلیں جمتی تھیں۔
پھر تڑپ کے قرار لکھنا ہے
عشق لکھنا ہے پیار لکھنا ہے
بس ترا انتظار رہتا ہے
دل بڑا بے قرار رہتا ہے
سوچتے ہیں یہ کہاں پیار نبھانے والے
کیسی کیسی یہ سزا دیں گے زمانے والے
سمجھ میں آتا نہیں ہے کہ گنگناؤں کیا
وہ خود غزل ہے اسے میں غزل سناؤں کیا
درد جو دل میں ہے چھپانا ہے
چشم پُرنم کو آزمانا ہے
سیف بابر کو لکھنؤ مہوتسو میں 2001 میں یووا رتن ایوارڈ 2001 ملا۔ اس کے بعد وہ متعدد اعزازات سے نوازے گئے۔ ان کا پہلا البم یونیورسل میوزیم کمپنی نے نشر کیا۔ جس میں گلوکار پدم شری استاد احمد حسین محمد حسین نے آواز دی۔ دوسرا البم 'آہ ' کے نام سے منظر عام پر آیا۔ تیسرا البم گزارش ٹائمس میوزک و سارے گاما پا میں گلوکار محمد وکیل نے آواز دی۔ چوتھا البم خواب آنکھوں میں منظر عام پر آیا۔ پانچواں البم میرا یہ دل تیری دھڑکن میں علی حسین گلوکار نے آواز دی۔ پرسار بھارتی کے گلدستہ لکھنؤ نامی پروگرام کے لیے پانچ نغمہ لکھے۔ اتر پردیش اردو اکادمی، بھات کنڈے میوزک یونیورسٹی لکھنؤ اور امیر الدولہ پبلک لائبریری کے ڈاکیومنٹری کے لیے خصوصی کلام لکھے۔